نوید ناظم
محفلین
زندگی میں جہاں دوست موجود ہوتے ہیں وہیں دشمن بھی ساتھ ہوتے ہیں۔۔۔۔ دشمن وہ ہے جو انسان سے اس کا سکون چھیننے کی کوشش کرے چاہے وہ کسی روپ میں ہو۔ وہ امیر دشمن ہے اُس غریب کا جس کے سامنے وہ اپنے پیسے کی نمائش کرتا ہے۔۔۔ ایسا امیر اپنے حاصل کو غریب کی محرومی ثابت کرنا چاہتا ہے۔ امیر کی دولت کی نمائش' غریب کی قناعت کی دشمن ہوتی ہے۔ وہ دوست جو اپنے دوست کی خوشامد کرتا ہے وہ بھی ایسے ہے جیسے دشمن، دیکھنے میں آیا کہ انسان خود بھی اپنا دشمن ہو سکتا ہے۔ جب یہ نفس سے دوستی کر لیتا ہے تو نفس اس سے دشمنی کر لیتا ہے۔ جب تک خواہشات انسان کے تابع رہیں تو ٹھیک اور جب انسان خواہشات کے تابع آ جا ئے تو سمجھو خطرہ پیدا ہو گیا کیونکہ خواہش' سکون کی دشمن ہے۔ خواہشات جتنی بڑھتی جائیں گی، سکون اتنا کم ہوتا جائے گا اور سکون جتنا بڑھتا جائے گا خواہشات اتنی کم ہوتی جائیں گی۔ دشمن وہ بھی ہے جو کسی مسافر کو اُس کے سفر سے بدظن کر دے،اس کی راہ مار لے۔۔۔ اسے اس کی منزل سے دور کر دے۔ دشمن' دشمن کو سُکھی نہیں دیکھ سکتا جس طرح کہ دوست' دوست کو دکھی نہیں دیکھ سکتا۔ دشمن سے لڑنا ضروری نہیں ہے مگر دشمن سے چوکنا رہنا بہت ضروری ہے۔ دشمن اور دوست میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ دشمن دل کا میلا ہوتا ہے اور دوست دل کا صاف۔ دوست کی بات دل کو لگتی ہے مگر دشمن کی بات دل پر لگتی ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے مگر انسان نے اسے دشمن جاننا چھوڑ دیا۔ وہ اسے غریبی کا ڈر دیتا ہے اور یہ حرام مال کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ وہ اشیاء کو مزین کر کے دکھاتا رہتا ہے اور انسان اُنہی اشیاء کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے، دشمن نے کیا کھیل کھیلا تھا اس کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب کھیل ختم ہونے کو ہو۔ سب سے برا انسان وہ ہے جو کسی انسان کا دشمن ہو، جس کے دل میں انسانیت کا درد نہ ہو۔ جو اللہ کی مخلوق کا دشمن ہو جائے، اللہ اس کا دوست نہیں ہو سکتا۔ اللہ کے دوستوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ ذاتی دشمنی سے پاک ہوتے ہیں۔ یہ ہو سکتا وہ کوئی دشمن رکھتے ہوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی سے دشمنی رکھتے ہوں۔ اللہ جس کا دوست ہو جائے وہ شخص انسان دوست ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا سے کسی کا دشمن بن کے رخصت نہیں ہوتا۔ اس کے دل میں کسی کے خلاف انتقام کی حسرت نہیں ہوتی اس لیے اس کا انجام خیر کے ساتھ ہے۔