شمشاد
لائبریرین
صحافت سے تعلق رکھنے والے جناب الطاف گوہر کی والدہ ماجدہ کی طبعیت بہت ناساز ہے۔ ان کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے۔
فیس بُک سے اقتباس :
جمعرات کو والدہ کی طبعیت بہت زیادہ خراب تھی ، ایک ہسپتال میں ٹریٹمنت کے بعد انکی ہارٹ بیٹ نہ سنبھلی توڈاکٹرز نے اسی رات لیٹ نائٹ فوری پی آئی سی ، کارڈیالوجی جیل روڈبھیج دیا تاکہ بر وقت علاج ہو سکے ، وہاں ایمرجنسی پہنچے تو بارش شروع ہو چکی تھی ، اب ویل چیر کی ضرورت تھی مگر ساری کوششوں کے باوجود ایک بھی ویل بھی نہ مل سکی ، مجبوراً کندھوں پہ اٹھا کر اایمرجنسی میں لے گئے ، وہاں جا کر نہ تو بیڈ ملا اور نہ ہی بیٹھے کو کوئی کرسی ،ای سی جی کروا کر پھر انتظار ، بمشکل کسی سے منت کر کے ایک مریضہ کے بیڈپہ بٹھا دیا ، وہیں مانیٹر لگا دیا گیا،
ایمرجنسی میں ویل چیر کہاں ملتی ، کیونکہ بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے عمر رسید اور خواتین ویل چیر پہ ہی کئی کئی گھنٹوں سے پڑے ہوےئ تھے اور یہی علاج چل رہا تھا، آئی سی یو میں جانے کی کوشش کی تو وہاں اینٹری ناممکن ، ایک خاتوں کو اسی انتظار میں اپنی آنکھوں کے سامنے جان سے ہاتھ دھوتے دیکھا جو ابھی ابتدائی طبعی امدادکے انتظار میں پڑی تھی، لوگ گھر پہ بھی آرام سے مر سکتے ہیں ، یہاں اذیت کی موت کیلئے کیوں بھاگتے ہیں جہاں سوائے امید کے اور کچھ نہیں؟
اس منظر پہ مجھے یقیناً خادم اعلیٰ بہت یاد آئے ؛
والدہ کو ساری رات بیڈ پہ ہی بٹھا کر اور پکڑ کہ گزارا مگر طبیعیت نہ سنبھل سکی ، صبح انہیں اس شیخ زید لے آئے ، جعہ کے روز انکی حالت بگڑ چکی تھی ، کیڈنیز بھی کام کرنا بند کر چکی تھیں ، افسوس بھی ہو رہا تھا کہ پی آی سی، کارڈیالوجی کی بجائے شیخ زید ہی آ جاتے ، بحر حال ، شب و روز کی ڈاکٹرزکی محنت اورسب احباب کی دعاوں کے باعث اللہ کا کرم ہو اور ابھی کچھ وقت پہلے والدہ نے آنکھیں کھولیں ، پہچاننا بھی شروع کر دیا جبکہ بہت سی پریشانی اور تکلیف سے بھی نکل آئیں ۔۔۔ امید ہے کہ رب العزت جلد ہی انہیں مکمل صحت سے ہمکنارکریں گے، آپکی دعائیں ہی میرا سرمایہ ہے اور انہی کے باعث زندگی نے موت کو شکست دی۔
فیس بُک سے اقتباس :
جمعرات کو والدہ کی طبعیت بہت زیادہ خراب تھی ، ایک ہسپتال میں ٹریٹمنت کے بعد انکی ہارٹ بیٹ نہ سنبھلی توڈاکٹرز نے اسی رات لیٹ نائٹ فوری پی آئی سی ، کارڈیالوجی جیل روڈبھیج دیا تاکہ بر وقت علاج ہو سکے ، وہاں ایمرجنسی پہنچے تو بارش شروع ہو چکی تھی ، اب ویل چیر کی ضرورت تھی مگر ساری کوششوں کے باوجود ایک بھی ویل بھی نہ مل سکی ، مجبوراً کندھوں پہ اٹھا کر اایمرجنسی میں لے گئے ، وہاں جا کر نہ تو بیڈ ملا اور نہ ہی بیٹھے کو کوئی کرسی ،ای سی جی کروا کر پھر انتظار ، بمشکل کسی سے منت کر کے ایک مریضہ کے بیڈپہ بٹھا دیا ، وہیں مانیٹر لگا دیا گیا،
ایمرجنسی میں ویل چیر کہاں ملتی ، کیونکہ بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے عمر رسید اور خواتین ویل چیر پہ ہی کئی کئی گھنٹوں سے پڑے ہوےئ تھے اور یہی علاج چل رہا تھا، آئی سی یو میں جانے کی کوشش کی تو وہاں اینٹری ناممکن ، ایک خاتوں کو اسی انتظار میں اپنی آنکھوں کے سامنے جان سے ہاتھ دھوتے دیکھا جو ابھی ابتدائی طبعی امدادکے انتظار میں پڑی تھی، لوگ گھر پہ بھی آرام سے مر سکتے ہیں ، یہاں اذیت کی موت کیلئے کیوں بھاگتے ہیں جہاں سوائے امید کے اور کچھ نہیں؟
اس منظر پہ مجھے یقیناً خادم اعلیٰ بہت یاد آئے ؛
والدہ کو ساری رات بیڈ پہ ہی بٹھا کر اور پکڑ کہ گزارا مگر طبیعیت نہ سنبھل سکی ، صبح انہیں اس شیخ زید لے آئے ، جعہ کے روز انکی حالت بگڑ چکی تھی ، کیڈنیز بھی کام کرنا بند کر چکی تھیں ، افسوس بھی ہو رہا تھا کہ پی آی سی، کارڈیالوجی کی بجائے شیخ زید ہی آ جاتے ، بحر حال ، شب و روز کی ڈاکٹرزکی محنت اورسب احباب کی دعاوں کے باعث اللہ کا کرم ہو اور ابھی کچھ وقت پہلے والدہ نے آنکھیں کھولیں ، پہچاننا بھی شروع کر دیا جبکہ بہت سی پریشانی اور تکلیف سے بھی نکل آئیں ۔۔۔ امید ہے کہ رب العزت جلد ہی انہیں مکمل صحت سے ہمکنارکریں گے، آپکی دعائیں ہی میرا سرمایہ ہے اور انہی کے باعث زندگی نے موت کو شکست دی۔
آخری تدوین: