نور وجدان
لائبریرین
جناب صلی علی وجہُ اللہ نے جب ابو جہل اور سیدنا عمر میں دونوں کے لیے دُعا فرمائی تو کیوں نَہ دونوں کے حق میں ہی دُعا فرما دیتے؟ انتخاب کا حق تو نبی یا مرسل رکھتا ہے مگر رحمتی للعالمینی تمام امت کے لیے دعا کا حق قرار دیتی ہے. دعا کے حوالے سے ایک بات جاننا ضروری ہے کہ دعائیں بعد از نظر ملہم نور ہوتے لفظیات میں ڈھل جاتی ہیں. گویا خدا، از خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے عام انسانوں کو راستہ بتا رہا ہے. تفکر کا پہلو یہ ہے کہ پہلی سورہ کی آخری باب بالخصوص ابو جہل پر وعید ہے.
تفکر کے نتیجے میں دو امکانات واضح ہوجاتے ہیں: ابو جہل کی سرکشی کے باوجود دعا کا نکل جانا، اور پھر اس شخص کے لیے رد ہوجانا، اس بات کی دلالت ہے کہ خُدا تعالی کی نگاہ میں دو بندے دنیاوی لحاظ ایک جیسی عقل،علم،شجاعت،فراست و فہم اور دانائی کے مالک تھے.یہ اوصاف خدا نے دونوں کو خود عطا کیے اور دنیاوی طور پر ان دو شخصیات کی ظاہری اور روحانی طور پر استقامت و شجاعت و بہادری کی صورت ایک جیسی تھی ....بظاہر دونوں کے درون میں شخصیت میں سرکشی تھی مگر سرکشی بہر طور ایک پردہ ہوتا ہے.یہ حجاب جب ہٹ جاتا ہے تو فاروقیت عطا ہوجاتی ہے ..
حضرت عمر فاروق کا غائبانہ ذکر، ان کی رائے پر قران پاک کی دستاویز بننا، اللہ کو ان کی رائے کا پسند آجانا اس امر کا غماز ہے کہ جہالت کا پردہ اتر جانے کے بعد اطاعت کیسے محبت و تسلیم میں ڈھل جاتی ہے اور جب انسان پر نسیان طاری ہوجائے
فاغشینھم ولا تبصرون
وسواء انذرتھم ولا تنظروں
یا صم بکم عم فھم لا یبصرون
ابو جہل سرکشی کا انتخاب کرتا ہے مگر کیسے؟ اسکے حق میں تو دُعا ہوجاتی .
سرکشی کا انتخاب تو جناب عمر نے بھی کیا مگر کیا ہوا؟
جب آیاتِ حق کی تلاوت ان دونوں پر ہوئی.دونوں نے جان لیا کہ یہ حق سچ ہے. اس لیے سیدی عمر فاروق نے تسلیم کرلیا دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو، طریق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو جہل نہ مان سکا جبکہ وہ حق کو جان چکا تھا ...
دعا کا ابو جہل کے لیے لبِ مبارک صلی علی سے ادا ہوجانا، غماز حقیقت ہے کہ نبی کی رحمت ہر ایک کے لیے یکساں ہے. وہ رحمت(صورت الہی) انسانی قلب(چاہے سرکش ہو) پیچھا کرتی ہے.یہ انسان کا نصیبہ ہے کہ وہ رحمت کو پا سکتا ہے یا نہیں .....د
تفکر کے نتیجے میں دو امکانات واضح ہوجاتے ہیں: ابو جہل کی سرکشی کے باوجود دعا کا نکل جانا، اور پھر اس شخص کے لیے رد ہوجانا، اس بات کی دلالت ہے کہ خُدا تعالی کی نگاہ میں دو بندے دنیاوی لحاظ ایک جیسی عقل،علم،شجاعت،فراست و فہم اور دانائی کے مالک تھے.یہ اوصاف خدا نے دونوں کو خود عطا کیے اور دنیاوی طور پر ان دو شخصیات کی ظاہری اور روحانی طور پر استقامت و شجاعت و بہادری کی صورت ایک جیسی تھی ....بظاہر دونوں کے درون میں شخصیت میں سرکشی تھی مگر سرکشی بہر طور ایک پردہ ہوتا ہے.یہ حجاب جب ہٹ جاتا ہے تو فاروقیت عطا ہوجاتی ہے ..
حضرت عمر فاروق کا غائبانہ ذکر، ان کی رائے پر قران پاک کی دستاویز بننا، اللہ کو ان کی رائے کا پسند آجانا اس امر کا غماز ہے کہ جہالت کا پردہ اتر جانے کے بعد اطاعت کیسے محبت و تسلیم میں ڈھل جاتی ہے اور جب انسان پر نسیان طاری ہوجائے
فاغشینھم ولا تبصرون
وسواء انذرتھم ولا تنظروں
یا صم بکم عم فھم لا یبصرون
ابو جہل سرکشی کا انتخاب کرتا ہے مگر کیسے؟ اسکے حق میں تو دُعا ہوجاتی .
سرکشی کا انتخاب تو جناب عمر نے بھی کیا مگر کیا ہوا؟
جب آیاتِ حق کی تلاوت ان دونوں پر ہوئی.دونوں نے جان لیا کہ یہ حق سچ ہے. اس لیے سیدی عمر فاروق نے تسلیم کرلیا دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو، طریق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابو جہل نہ مان سکا جبکہ وہ حق کو جان چکا تھا ...
دعا کا ابو جہل کے لیے لبِ مبارک صلی علی سے ادا ہوجانا، غماز حقیقت ہے کہ نبی کی رحمت ہر ایک کے لیے یکساں ہے. وہ رحمت(صورت الہی) انسانی قلب(چاہے سرکش ہو) پیچھا کرتی ہے.یہ انسان کا نصیبہ ہے کہ وہ رحمت کو پا سکتا ہے یا نہیں .....د