طمیم
محفلین
ذیل میں کتاب
دعوت لطائف مرتب کردہ چوہدری سردار محمد خان عزیز صاحب
سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ وقت ملنے پر مزید اقتباسات شامل کرتا رہوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعجاز تحریر
ڈاکٹروں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے نرسیں اور دوا فروش کس طرح پڑھتے ہیں؟ یہ سنجیدہ سا سوال ایک دفعہ ایک ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا تو اس نے کہانی سنائی۔
ایک دفعہ میرے والد صاحب نے ایک ڈاکٹر صاحب سے نسخہ لیا۔ جب دوا فروش نے یہ نسخہ تیار کردیا تو میرے والد صاحب نے یہ نسخہ دوا فروش سے واپس لے لیا۔ پورے دو سال تک میرے والد نے یہ نسخہ بطور ریلوے پاس استعمال کیا۔ اسی نسخے کی مدد سے کم از کم پندرہ موسیقی کی محفلوں کا لطف اُٹھایا ۔ اسی نسخہ کی بدولت میرے والد صاحب نے پچیس پکچریں دیکھیں۔ پھر ایک دن انہوں نے سوچا کہ اس نسخہ کا مزید فائدہ اُٹھانا شرافت سے کچھ بعید سی بات معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے چھوٹے بیٹے کو عنایت کردیا جو کئی مہینے نسخے کو سامنے رکھ کر پیانو پر موسیقی کی مشق کرتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجۂ تسلی
اُنہیں رات کے چوکیدار کی ضرورت تھی۔ جس شخص کا اس سلسلے میں انٹرویو ہورہا تھا۔ وہ کچھ ڈرپوک اور بزدل قسم کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ انٹرویو میں وہ مینجر کو اچھی طرح متاثر نہ کرسکا۔ جو صفات وہ چاہتے تھے وہ اس شخص میں قطعاً نظر نہ آتی تھیں۔ مینجر نے اس اُمیدوار پر ایک مشکوک سی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا ۔ دیکھئے دراصل ہمیں ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ہر شخص کو شبہ کی نظر سے دیکھے۔ ایسا شخص جو ایک آنکھ کھول کر سوئے۔ جس کی قوت سماعت اتنی اچھی ہو کہ خفیف ترین آواز سن کر اُٹھ کھڑا ہو۔ یعنی ایسا ہو جو ہمہ وقت گوش برآواز ہو۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمیں ایک ہوشیار ، بدخو، جگھڑالو، زبان دراز، خطرناک، تند مزاج اور کینہ پرور شخص کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ایسا ہو کہ جس وقت اسے غصہ آئے وہ ایک خونخوار بھیڑیا نظر آئے۔
اُمیدوار نے اطمینان سے جواب دیا ۔ آپ بجا فرماتے ہیں، میں آپ کی ضرورت کو کماحقہ سمجھ گیا ہوں۔ میں اپنی بیوی کو بھیج دوں گا۔
دعوت لطائف مرتب کردہ چوہدری سردار محمد خان عزیز صاحب
سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ وقت ملنے پر مزید اقتباسات شامل کرتا رہوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعجاز تحریر
ڈاکٹروں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے نرسیں اور دوا فروش کس طرح پڑھتے ہیں؟ یہ سنجیدہ سا سوال ایک دفعہ ایک ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا تو اس نے کہانی سنائی۔
ایک دفعہ میرے والد صاحب نے ایک ڈاکٹر صاحب سے نسخہ لیا۔ جب دوا فروش نے یہ نسخہ تیار کردیا تو میرے والد صاحب نے یہ نسخہ دوا فروش سے واپس لے لیا۔ پورے دو سال تک میرے والد نے یہ نسخہ بطور ریلوے پاس استعمال کیا۔ اسی نسخے کی مدد سے کم از کم پندرہ موسیقی کی محفلوں کا لطف اُٹھایا ۔ اسی نسخہ کی بدولت میرے والد صاحب نے پچیس پکچریں دیکھیں۔ پھر ایک دن انہوں نے سوچا کہ اس نسخہ کا مزید فائدہ اُٹھانا شرافت سے کچھ بعید سی بات معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے چھوٹے بیٹے کو عنایت کردیا جو کئی مہینے نسخے کو سامنے رکھ کر پیانو پر موسیقی کی مشق کرتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجۂ تسلی
اُنہیں رات کے چوکیدار کی ضرورت تھی۔ جس شخص کا اس سلسلے میں انٹرویو ہورہا تھا۔ وہ کچھ ڈرپوک اور بزدل قسم کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔ انٹرویو میں وہ مینجر کو اچھی طرح متاثر نہ کرسکا۔ جو صفات وہ چاہتے تھے وہ اس شخص میں قطعاً نظر نہ آتی تھیں۔ مینجر نے اس اُمیدوار پر ایک مشکوک سی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا ۔ دیکھئے دراصل ہمیں ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ہر شخص کو شبہ کی نظر سے دیکھے۔ ایسا شخص جو ایک آنکھ کھول کر سوئے۔ جس کی قوت سماعت اتنی اچھی ہو کہ خفیف ترین آواز سن کر اُٹھ کھڑا ہو۔ یعنی ایسا ہو جو ہمہ وقت گوش برآواز ہو۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمیں ایک ہوشیار ، بدخو، جگھڑالو، زبان دراز، خطرناک، تند مزاج اور کینہ پرور شخص کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب ہے کہ وہ ایسا ہو کہ جس وقت اسے غصہ آئے وہ ایک خونخوار بھیڑیا نظر آئے۔
اُمیدوار نے اطمینان سے جواب دیا ۔ آپ بجا فرماتے ہیں، میں آپ کی ضرورت کو کماحقہ سمجھ گیا ہوں۔ میں اپنی بیوی کو بھیج دوں گا۔