نذر حافی
محفلین
دفاعی بجٹ۔۔۔ دفاعی حکام سے تین سوال
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
سانحہ مستونگ کے بعد لوگوں کی نظریں آل پارٹیز کانفرنس پر لگی ہوئی تھیں، یہ اتنی اہم کانفرنس تھی کہ وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت متعدد اہم شخصیات اس میں شامل تھیں، ان ساری شخصیات نے سرجوڑ کر بیٹھنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ سانحہ مستونگ ملک دشمنوں کی کارروائی ہے اور اس کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔ ساتھ ہی ان جذبات کا اظہار بھی کیا گیا کہ ہم ذمہ دار عناصر کو چھوڑیں گے نہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اتنی اہم کانفرنس منعقد کرکے ہماری اہم شخصیات نے جو نتیجہ نکالا ہے، ہمارے ہاں کا ان پڑھ آدمی بھی بغیر کسی کانفرنس کے یہی نتیجہ نکالتا ہے۔ آپ کسی دودھ بیچنے والے ان پڑھ یا یا نسوار فروش اجڈ کو اس طرح کے واقعات سنا کر پوچھیں، آپ کو کیا لگتا ہے کوئی محبّ وطن شخص ایسا کرسکتا ہے! وہ کہے گا، نہیں نہیں! اس کام کے پیچھے تو مجھے کوئی غیر ملکی ہاتھ لگتا ہے۔ آپ اسے کہیں کہ سانحہ مستونگ کے ذمہ دار عناصر کی بارے میں تمہارے کیا جذبات ہیں؟! وہ کہے گا کہ اگر میرے ہاتھ لگ جائیں تو چھوڑوں گا نہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری اہم شخصیات کی تجزیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت اور جذبات ہمارے ہاں کے عام اور ان پڑھ آدمی جیسے ہی ہیں۔ ہماری ان اہم شخصیات نے مالی سال 16-2015 کے لئے 43 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ قرار دینے والوں نے ملکی دفاع کے لئے 780 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ 780 ارب روپے ایک سال کے اندر ہمارے دفاع کے لئے مختلف لوگوں کی جیبوں میں چلے جانے ہیں۔ یہ تو آن دی ریکارڈ 780 ارب روپے ہیں، دوسری طرف ہماری سلامتی اور دفاع کا آف دی ریکارڈ بجٹ اگر آپ نے دیکھنا ہو تو کوئٹہ سے تفتان روٹ کا سفر کرکے دیکھیں، جہاں ہماری سکیورٹی اور دفاع پر مامور جیالے مسافروں سے دھڑا دھڑ رشوت بٹورنے میں مصروف ہیں۔ جو مسافر رشوت دینے سے کترائے، اسے کہتے ہیں کہ تمہیں ایک ہفتے تک ادھر ہی “کانوائے” کا انتظار کرنا پڑے گا۔
پورا سال یہ سرکاری کارندے مسافروں سے رشوت بٹورتے ہیں اور جب دہشت گردی کا واقعہ ہوجاتا ہے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے حکامِ بالا سے ہمارا پہلا یہ سوال ہے کہ کیا مسافروں کو ہراساں کرنے، دھمکانے اور رشوت لینے والے سرکاری کارندے بھی را اور بھارت کے ملازم ہیں؟؟؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب “را” اور بھارت کے لئے کام کر رہے ہیں تو پھر پاکستان کی ایجنسیاں اور ادارے کہاں ہیں؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا رشوت خوری اور دہشت گردی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور یہ 780 ارب روپے بھی “را” اور بھارت کے ایجنٹوں پر خرچ کئے جائیں گے۔۔۔؟
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com
سانحہ مستونگ کے بعد لوگوں کی نظریں آل پارٹیز کانفرنس پر لگی ہوئی تھیں، یہ اتنی اہم کانفرنس تھی کہ وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت متعدد اہم شخصیات اس میں شامل تھیں، ان ساری شخصیات نے سرجوڑ کر بیٹھنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ سانحہ مستونگ ملک دشمنوں کی کارروائی ہے اور اس کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔ ساتھ ہی ان جذبات کا اظہار بھی کیا گیا کہ ہم ذمہ دار عناصر کو چھوڑیں گے نہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اتنی اہم کانفرنس منعقد کرکے ہماری اہم شخصیات نے جو نتیجہ نکالا ہے، ہمارے ہاں کا ان پڑھ آدمی بھی بغیر کسی کانفرنس کے یہی نتیجہ نکالتا ہے۔ آپ کسی دودھ بیچنے والے ان پڑھ یا یا نسوار فروش اجڈ کو اس طرح کے واقعات سنا کر پوچھیں، آپ کو کیا لگتا ہے کوئی محبّ وطن شخص ایسا کرسکتا ہے! وہ کہے گا، نہیں نہیں! اس کام کے پیچھے تو مجھے کوئی غیر ملکی ہاتھ لگتا ہے۔ آپ اسے کہیں کہ سانحہ مستونگ کے ذمہ دار عناصر کی بارے میں تمہارے کیا جذبات ہیں؟! وہ کہے گا کہ اگر میرے ہاتھ لگ جائیں تو چھوڑوں گا نہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری اہم شخصیات کی تجزیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت اور جذبات ہمارے ہاں کے عام اور ان پڑھ آدمی جیسے ہی ہیں۔ ہماری ان اہم شخصیات نے مالی سال 16-2015 کے لئے 43 کھرب 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ قرار دینے والوں نے ملکی دفاع کے لئے 780 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ 780 ارب روپے ایک سال کے اندر ہمارے دفاع کے لئے مختلف لوگوں کی جیبوں میں چلے جانے ہیں۔ یہ تو آن دی ریکارڈ 780 ارب روپے ہیں، دوسری طرف ہماری سلامتی اور دفاع کا آف دی ریکارڈ بجٹ اگر آپ نے دیکھنا ہو تو کوئٹہ سے تفتان روٹ کا سفر کرکے دیکھیں، جہاں ہماری سکیورٹی اور دفاع پر مامور جیالے مسافروں سے دھڑا دھڑ رشوت بٹورنے میں مصروف ہیں۔ جو مسافر رشوت دینے سے کترائے، اسے کہتے ہیں کہ تمہیں ایک ہفتے تک ادھر ہی “کانوائے” کا انتظار کرنا پڑے گا۔
پورا سال یہ سرکاری کارندے مسافروں سے رشوت بٹورتے ہیں اور جب دہشت گردی کا واقعہ ہوجاتا ہے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے حکامِ بالا سے ہمارا پہلا یہ سوال ہے کہ کیا مسافروں کو ہراساں کرنے، دھمکانے اور رشوت لینے والے سرکاری کارندے بھی را اور بھارت کے ملازم ہیں؟؟؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب “را” اور بھارت کے لئے کام کر رہے ہیں تو پھر پاکستان کی ایجنسیاں اور ادارے کہاں ہیں؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا رشوت خوری اور دہشت گردی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور یہ 780 ارب روپے بھی “را” اور بھارت کے ایجنٹوں پر خرچ کئے جائیں گے۔۔۔؟