عالمی قواعد و ضوابط کے عين مطابق امريکی حکومت کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ جماعت الدعوہ جيسی کالعدم تنظيموں کے قائدين کی کھلم کھلا عوامی سرگرميوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرے۔ يہ کوئ پوشيدہ امر نہيں ہے کہ لشکر طيبہ اور اس سے منسلک جماعت الدعوہ پر القائدہ سے تعلقات کی وجہ سے عالمی سطح پر پابندياں عائد کی جا چکی ہيں۔ ہم نے ماضی ميں بھی اور اب بھی پاکستانی حکومت پر زور ديا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد 1267/1989سے متعلق اپنی ذمہ دارياں پوری کرے۔ ان قراردادوں کے مطابق تمام ممالک پر يہ لازمی ہے کہ وہ کالعدم تنظيموں کے اثاثے منجمند کريں، ان تک اسلحے کی فراہمی کی روک تھام کی جائے اور جن افراد پر پابندی عائد کی گئ ہے انھيں اپنے علاقوں ميں کھلم کھلا سرگرميوں کی اجازت نہ دی جائے۔
اسی دھاگے میں موجود محفل کے پاکستانی اراکین کے مراسلے اس بات کی کافی سے زیادہ وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان گروپوں پر پابندی لگنی چاہئیے اور یہ بھی جان لیجئیے کہ یہی پاکستانی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد لڑائی پر امریکی حکومت کی پالیسیوں اور امریکی فوج کے انسانیت سوز کاموں پر امریکہ کو نا پسند کرتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ امریکہ کے حالیہ ہنی مُون نے اس نا پسندیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ یوں امریکہ کا القاعدہ اور طالبان کے بارے میں واویلا اب سوائے گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ امریکہ کے اس قدم سے کافی حد تک امریکہ کی طالبان اور القاعدہ کی اوٹ میں چھپی منافقت بھی طشت از بام ہو گئی ہے۔ آپ جن طالبان پر اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں پابندی کا حوالہ دے رہے ہیں انہی طالبان سے آپ کی حکومت خود مذاکرات کر رہی ہے اور ستم ظریفی یہ کہ آپ کی دانشوری پھر بھی ہم پاکستانیوں کو شدت پسندوں کے حمایتی قرار دیتی ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پر ٹھیک عمل ہو سکے تو اسے خود بھی ان کا احترام کرتے ہوئے ایسے گروپوں سے تعلقات اور مذاکرات ختم کرنے ہوں گے جو تشدد و خونریزی کے عادی ہیں۔ بھیڑئیے اور بھیڑ کے بچے والا جنگل کا قانون لاگو کر کے اس خطے میں مزید عدم استحکام آئے گا۔
اس ضمن ميں امريکی حکومت کے نقطہ نظر اور خدشات کا دفاع پاکستان يا کسی بھی اور سياسی دھڑے کے سیاسی نظريات سے کوئ واسطہ نہيں ہے۔ يہ دليل اس ليے بھی غير موثر اور ناقابل فہم ہے کيونکہ تمام تر باہمی اختلافات سے قطع نظر پاکستان کی کئ مذہبی اور سياسی جماعتوں نے بسا اوقات امريکہ مخالف نعروں کو اپنی سياسی حکمت عملی اور مہم کا حصہ بنايا ہے۔ ليکن سياسی نقطہ چينی اور سياسی تشدد کے ليے فضا بنانا اور اس کی تلقين کرنا دو مختلف چيزيں ہيں۔
دیکھئیے صاحب ، معاملات کو گڈ مڈ مت کیجئیے جب ہم کچھ کہہ کر آپ کو لاجواب کریں گے تو آپ پھر سے وہی گردان دہرانا شروع کر دیں گے کہ ہم طالبان کے حامی ہیں۔
پہلے تو یہ فرمائیے کہ یہ سیاسی تشدد ہوتا کیا ہے؟۔ ذرا غور فرمائیے میرے سوال پر اور سوچئیے کہ کہیں آپ کے اندر کہیں نہ کہیں موجود کوئی انجانا سا خوف تو آپ سے یہ بات نہیں لکھوا رہا؟۔ امریکہ مخالف نعروں کو سیاسی مہم میں استعمال کیا جانا کوئی بڑی بات نہیں آپ کی جمہوریت میں بھی ووٹ لینے کے لئیے ایسے ہتھکنڈے عراق ، ایران ، افغانستان ، چین اور پاکستان کے حوالے سے اختیار کئیے جاتے ہیں۔
حقيقت يہی ہے عالمی قواعد کے تحت پاکستان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اس بات کو يقینی بنائے کہ وہ افراد جو سياسی عزائم کی آڑ ميں معصوم افراد کو قتل کرنے کی کھلم کھلا رغبت ديتے ہيں، ان کے شر انگيز پيغامات کو عوامی پليٹ فورمز اور اجتماعات پر تشہير کا موقع نہيں ملنا چاہيے۔
آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ نہ صرف ان کی تشہیر نہیں ہونی چاہئیے بلکہ ان کے کئیے کا بدلہ بھی انہیں ملنا چاہئیے۔ اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس بات کی ذمہ دار ہے جو افراد ، قوتیں اور حکومتیں شر انگیزی اور قتل وغارت میں ملوث ہوں انہیں قرارواقعی سزا ملنی چاہئیے۔
بس مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی حکومت خود بھی عراق کے حوالے سے شر انگیز پیغامات (WMD ) واجتماعی قتل اور افغانستان و پاکستان میں قتل عام اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتی دیکھی جا سکتی ہے۔ کیا خیال ہے اگر آپ کی حکومت اس کام کواپنے گھر سے شروع کر کے ایک اچھا آغاز فراہم کر دے اس کے بعد دنیا کے امن کا دوسرا بڑا ٹھیکیدار، برطانیہ، اپنی ہی عدالت میں عراق پر غلط بیانی کا اقرار جرم کرنے والے ٹونی بلئیر کے خلاف کارروائی کرے۔ دیکھتے ہیں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ فی الحال تو منافقت ہی منافقت اور جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے اور الزام تراشی کر کے دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے آپ کی حکومت۔