دفتری سیاست سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے

495x278x8823_15198363.jpg.pagespeed.ic.Jtml0jmKiF.jpg

عبدالستار ہاشمی
کھانے کی میز ہو یاسٹڈی روم، سفرہو یا کوئی محفل زیادہ تر بات چیت کا محور سیاست ہی ہوتا ہے، عام طورپر سیاست سے مراد وہ کاروبار ہائے ریاست ہے جس میں پالیسیوں کی تعریف سے تنقید تک سیرحاصل گفتگو کی جاتی ہے اور اسی سیاست سے اقتدار چھینے جاتے ہیں، تختوں پر قبضے کیے جاتے ہیں لیکن سیاست کا یہ مفہوم اتنا محدود نہیں ہے۔ ریاست کے علاوہ بھی سیاست کام کرتی ہے۔ گھروں میں سیاست، دوستوں میں سیاست اور سب سے بڑھ کر دفاتر میں سیاست ہوتی ہے۔ ہر ادارے ، تنظیم اورمحکمے میں اس کی موجودگی اور اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں اور اپنا الو سیدھا کیا جاتا ہے۔ یہی سیاست ہے۔ آج شائقین کی دلچسپی اور متاثرہ افراد کیلئے اس مضمون میں کچھ عوامل پر بحث کرتے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ دفاتر کی سیاست کی آلودگی سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔

-1کچھ بولنے سے پہلے سوچیے کسی ادارے یا دفتر میں ہونے والی سیاست کے مضر اثرات سے بچائو کا ایک بہترین حل یہ ہے کہ اپنی گفتگو کو محدود اور مدلل رکھیں۔ کچھ بھی کہنے سے قبل اس پر دومرتبہ نظرثانی کریں اور نتائج کا سوچ کر بولیں۔ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اور اس پر حاسدین آپ کی سوچ سے بھی بڑے کاریگر ہوتے ہیں۔ آپ کے کہے ہوئے الفاظ کسی طرح مفہوم بدل کر آگے بیان کیے جاتے ہیں اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اصطلاح بہت برے نتائج کی حامل ہوتی ہے اور وہ ہے زبان کا پھسلن۔ یعنی ایسے الفاظ کا ادا ہونا جس میں آپ کی سوچ اور مرضی شامل نہیں ہے لیکن فرط جذبات میں بہہ کرمنہ سے نکل گئے ہیں۔ دفاتر میںسیاست کا ایک پرزہ یہ استعمال ہوتا ہے کہ آپ کے ماتحت یا سپروائزر کو یہ فریضہ سونپا گیا ہوتا ہے کہ آپ پر نظر رکھیں اور جو رپورٹ اس ضمن میں آگے جائے گی وہ مشکلات کا سبب بنے گی۔ لہٰذا ان تمام خطرات اور خدشات سے نمٹنے کا ایک ہی حل ہے کہ کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچ لیں۔

-2 تعلقات مضبوط بنائیے اگر آپ دفتر میں اپنے آپ کو سیاست کے گھیرائو سے پرے رکھنا چاہتے ہیں تو ان تمام لوگوں سے اپنے تعلقات کی نہ صرف تجدید کریں بلکہ انہیںمضبوط بھی بنائیں جو کرتا دھرتا ہوتے ہیں۔ ان تعلقات کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ آپ پاور پولیٹکس کرنا چاہتے ہیں یا کسی عہدے کیلئے جتن کر رہے ہیں بلکہ تعلقات بنانے کا یہ عمل آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے خلاف ہونے والی سازش کو توڑنے میں کام آئے گا۔ کسی ایسے گروپ میں اپنی موجودگی کو ثابت کرنا ضروری ہے جو تمام فیصلوں پراثرانداز ہوسکتا ہو۔ ایسے طاقتور لوگوں کو ہلکی پھلکی دعوت پر بلائیں۔ چائے کی میز پران کے پسندیدہ موضوع پر بحث کریں۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ خوشامد پر اتر آئیں صرف یہ ہے کہ انہیں لگے کہ آپ اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنا پر ان کے قریب اور وفادار ہیں۔ اس طرح دفتری سیاست کی نذر ہونے سے بچے رہیں گے۔

-3اپنے ابلاغ کو فروغ دیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ دوسروں کی مدد لینے کی بجائے دوسروں کے مددگار ثابت ہوں اور دفتر کی اندرونی سیاست میں اپنا کردار نبھائیں تو پھراپنی گفتگو کو بڑھائیں۔ آپ کی بات میں وزن ہونا چاہیے۔ اور دلائل ایسے کہ مخالف راضی ہوئے بغیر نہ اٹھے اس کیلئے تھوڑی لیکن وزن دار بات کرنے کی مشق کریں اور یہ دھاک بیٹھ جائے کہ کسی بھی موضوع پر آپ سے بہتر کوئی بول نہیں سکتا۔ دفتری مسائل کو حل کرانے کیلئے طے پائی جانے والی میٹنگز میں آپ کا ہونا ضروری سمجھا جائے۔ آپ بے شک عہدوں کی سیاست نہ کریں نہ ہی کسی دھڑے کا حصہ بنیں لیکن اپنے ابلاغ کو فروغ دیں لہجہ شیرنی ہو اور ماتھے پر شکنوں کی بجائے خوش آمدید کا تاثر ہو۔ اس کا سب سے بڑافائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو ایک معزز ہونے کا خطاب ملے گا اور اس طرح آپ نہ صرف خود ان الجھے امور سے دور رہ پائیں گے بلکہ دوسروں کو بھی دور رکھ سکیں گے۔

-4 اپنے رویے میں اعتدال رکھیں یہ ایک حقیقت ہے کہ اداروں میں ہونے والی سیاست نہ صرف آپ کو آپ کے عہدے سے محروم کرسکتی ہے بلکہ الجھن اور تنائو کا ایک اچھا ماحول پیدا کرتی ہے۔ جس سے آپ کی صحت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے اور تمام معاملات کو افہام تفہیم سے نمٹائیں اور اپنے رویے کو ہمیشہ اعتدال میں رکھیں۔ بہت مرتبہ ایسے ہوتا ہے کہ انسان تنائو کا شکار ہو کر پھٹ پڑتا ہے اور منہ میں جو آتا ہے بول دیتا ہے۔ منہ سے نکلے الفاظ واپس نہیں آتے جس کا نقصان بہرحال بھگتنا پڑتا ہے۔ کسی سے بھی اختلاف رائے ہو جائے تو اس سے بات کرتے وقت الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتیں۔ اس سے مخالف کی سوچ تبدیل ہوسکتی ہے۔

-5 گپ شپ میں بہک نہ جائیے دفاتر میں ہونے والی گپ شپ سیاست کا تعین کرتی ہے۔ بعض اوقات حراساں کرنے کیلئے خوفناک نتائج پر مبنی کہانیاں سننے میں ملتی ہیں۔ ایسی تمام باتوں میں اکثریت افواہوں کی ہوتی ہیں جو ڈرانے کیلئے اڑائی جاتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان افواہوں پر کان نہ دھریں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ فوراً افواہ کی تصدیق کریں۔ تصدیق کیلئے اگر آپ کو اپنے مخالف کے پاس بھی جانا پڑے تو گریزاں نہ ہوں۔ ایسی کسی معلومات پر بھروسہ نہ کریں جس کی صحت پر شک ہو اور نہ ہی ایسے حقائق آگے پیش کریں جن کو ثابت کرنا مشکل ہو۔ لوگوں کی باتوں کو صرف سنیں ان کا حصہ نہ بنیں۔ اکثر معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ دفاتر میں حاسدین ایسی بے پرکی اڑاتے ہیں کہ اس کی دھول میں لپٹنے والے بہت خسارے کا سامنا کرتے ہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایسی تمام خرافات سے دور رہیں۔

-6 کھیل سمجھ کر کھیلیں کسی بھی معاملے میں آپ سے جو کچھ کہا جائے یا نصیحت کی جائے اس پر اندھا دھند اعتماد اور یقین کرنے کی بجائے اس کے مستند ہونے کا انتظار کریں۔ کوئی کچھ کہے بس سن لیں لیکن مرضی اپنی کریں۔ اگر آپ کسی کے مشورے پر عمل درآمد کر جاتے ہیں تو بعدازاں یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ تو سیاست کا ایک حصہ تھی تب بہت دیر ہو چکی ہوگی اور آپ خسارے میں ہوں گے۔ لہٰذا جس طرح کھیل میں کپتان سے لیکرکھلاڑی تک ہر کوئی مخالف کی چال پر نظر رکھتا ہے۔ اس طرح آپ بھی ہر شخص کی حرکات کو اپنے نوٹس میں رکھیں اور حالات، واقعات کے مطابق ردعمل دیں۔ کھیل میں دشمنی نبھانا نہیں ہوتا بلکہ مات دینا ہوتا ہے۔ جس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ میدان سے باہر کسی قسم کے نقصان کا احتمال نہیں ہوتا اسی طرح دفتری سیاست کو محض کھیل سمجھ کر کھیلیں اور مخالف کے وار کو اس طرح واپس پلٹیں جس طرح سے یہ کیا گیا ہے۔

-7اختلاف کو تسلیم کریں سیاست میں لمحہ بہ لمحہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں بعض اوقات بہت ہی جارحانہ پالیسی اختیار کرنی پڑتی ہے بلکہ کبھی بہت ہی دفاعی انداز میں ردعمل دینا پڑتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نکتہ پر آپ شدید مخالف ہیں لیکن موقع کی مناسبت سے آپ کو اسی نکتہ پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے تو ایسی صورتحال میں اس اختلاف کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ مصلحت پسندی کے پیش نظر اسے مان بھی لیں۔ ایک’’ناں‘‘ آپ کو کوسوں دورلے جاتی ہے اور واپس اپنے مقام پر آنے کیلئے طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ اس ’’نا‘‘ سے اجتناب کیا جائے اور اپنے مسائل بڑھانے کی بجائے کم کیے جائیں۔ یہ سارا کھیل ہی بروقت فیصلوں کا ہے۔

-8اپنی اقداریں کو کھوئیں نہیں بہت سے کارکنوں کیلئے دفتری ماحول میں خاموشی خطرناک ہوتی ہے۔ تبادلہ، برخواستگی یا سروس سے محرومی جیسے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ کسی فعال کارکن کو محض حسد کی بنا پر کھڈے لائن لگانے کی پالیسی بنائی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں اپنی اقدار کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ اگر آپ بہت محنتی کارکن ہیں تو پھر خوشامد کا راستہ اپنانے کی بجائے راست گوئی کو اپنایا جائے۔ ایسی معتدل پالیسی بنائی جائے کہ ہر کوئی آپ کے مسلمہ اصولوں اور اقتدار کے مضبوط ہونے کی گواہی دے۔ بدترین صورتحال میں آخری حربہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے سامنے پیش ہو جائیں اور اپنا موقف ان کے سامنے رکھیں۔ اگر آپ کی گڈول ہے تو یہ بات آپ کے حق میں جائے گی۔ گویا ایماندار ہونا بھی آپ کو سیاست کے بھیڑوں سے دور رکھ سکتی ہے۔

-9 ہمہ وقت باخبر رہیں دفاتر میں ہونے والی تمام حرکات اور شیڈول پر نظر رکھیں۔ کوئی بھی اہم مسئلہ چل رہا ہوں تو اس کی جزئیات سے ہمہ وقت باخبر رہیں۔ اس کی باریک بینیوں کا جائزہ لیں اور ہر طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے متبادل سے متبادل حل اپنے پاس محفوظ رکھیں اور تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب آپ باخبر رہیں۔ اندر کی خبر لانے کیلئے سورس کا ہمیشہ خیال رکھیں۔ اس نکتہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کو جیمز بانڈ بن کرجاسوسی پر مامور ہو جائیں صرف یہ ہے کہ جو بھی نئی معلومات شیئر ہوتی ہیں اسے دھیان سے سنیں اور اس سے متعلق ہر چیز سے اپ ڈیٹ رہیں۔

http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-04-20/8823
 
خاص طور پر جب ایسے دفتر میں کام کیا جائے جہاں مختلف قومیتوں کے لوگ کام کر رہے ہوں تو سیاست ایک لازمی امر بن جاتی ہے۔ اور ان سب کا سب سے بہتر توڑ بہترین کارکردگی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
خاص طور پر جب ایسے دفتر میں کام کیا جائے جہاں مختلف قومیتوں کے لوگ کام کر رہے ہوں تو سیاست ایک لازمی امر بن جاتی ہے۔ اور ان سب کا سب سے بہتر توڑ بہترین کارکردگی ہے۔
یہاں بہترین کارکردگی کم اور قومیت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
خاص طور پر جب ایسے دفتر میں کام کیا جائے جہاں مختلف قومیتوں کے لوگ کام کر رہے ہوں تو سیاست ایک لازمی امر بن جاتی ہے۔ اور ان سب کا سب سے بہتر توڑ بہترین کارکردگی ہے۔

درست۔ دفتر میں آپکا کام بہترین کارکردگی دکھانا ہونا چاہئے نہ کہ کام کرنےو الوں کے بارہ میں سیاست کرنا۔ یہ کام آپ محض ایوانوں میں موجود سیاست دانوں پر چھوڑ دیں۔
 
درست۔ دفتر میں آپکا کام بہترین کارکردگی دکھانا ہونا چاہئے نہ کہ کام کرنےو الوں کے بارہ میں سیاست کرنا۔ یہ کام آپ محض ایوانوں میں موجود سیاست دانوں پر چھوڑ دیں۔
بہترین کارکردگی سے آپ اپنی کمپنی کا سرمایہ بن جاتے ہیں۔ مگر کچھ ممالک جہاں نسل پرستی عروج پر ہو وہاں سیاست اور نسل پرستی آپکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
 
خاص طور پر جب ایسے دفتر میں کام کیا جائے جہاں مختلف قومیتوں کے لوگ کام کر رہے ہوں تو سیاست ایک لازمی امر بن جاتی ہے۔ اور ان سب کا سب سے بہتر توڑ بہترین کارکردگی ہے۔
اگر کسی بلاگ سے تحریر شامل کرنی ہو تو اس کے لیے محفل کے کیا قوانین ہیں؟ کیا رائٹر کا حوالہ دے کر شامل کر سکتے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
بہترین کارکردگی سے آپ اپنی کمپنی کا سرمایہ بن جاتے ہیں۔ مگر کچھ ممالک جہاں نسل پرستی عروج پر ہو وہاں سیاست اور نسل پرستی آپکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

تو پھر وہ کمپنی بہترین کارکردگی نہیں دکھا سکتی اور مستقبل میں خسارے اور گھاٹے میں جائے گی۔
 
ڈفروں کی ڈفریوں کا قطعی غیر سنجیدہ بلاگ

ڈفرستان
http://www.dufferistan.com/?p=536
آفس پالیٹکس؛ اتنا اہم مضمون ہے اور آج تک کسی کالج یونیورسٹی میں پڑھایا نہیں جاتا۔ اس مضمون کے ساتھ بھی باقی مضامین جیسا ہی سلوک ہے ۔ انٹرنیشنل ریلیشنز ، پولیٹیکل سائینس ، پولیٹیکل تھیوری، کلچرل اینڈ آئیڈنٹٹی پولیٹکس جیسے فضول مضامین پڑھائے جاتے ہیں پر یہ مضمون کیوں نہیں؟ حالانکہ کالج یانیورسٹی سے نکل کر تو بندے نے نوکری ہی کرنی ہے نا۔ جہاں ضرورت پڑنی ہے اس مضمون سے حاصل شدہ علم کی۔ تا کہ بندہ اسکا استعمال کر کے دوسروں کو خراب کرنے کی بجائے کم از کم اپنا بچاؤ تو کر سکے۔ پر نہیں جی انسان کا بھلا کیوں‌ہو؟ وہی کیلکولس کے نا استعمال ہونے والے علم کی طرح پتا نہیں کیا کیا پڑھاتے رہتے ہیں جسکا کبھی عملی زندگی میں بندے نے استعمال نہیں‌کرنا ہوتا۔ جس علم کی ضرورت ہوتی ہے اس سے بالکل نا بلد
اس علم کے ساتھ ساتھ طالب علم کو ایک اور مضمون بھی پڑھایا جانا چاہئے۔ جسکا ٹائیٹل کچھ اس طرح کا ہو تو اچھا ہے، ”قوانین مروّت“ ، ”اصول بے غیرتی“ وغیرہ وغیرہ۔ جن کو پڑھ کر بندے سے ساری مروت اور غیرت فشوں‌ہو جائے اور بندہ ”یا بے شرمی تیرا ہی آسرا ۔۔۔“ کا نعرہ لگاتا پھرے۔ اسی مضمون میں ایک کتاب ہونی چاہئے ”مکھن بازی“ پر اور اس کتاب میں ہوں ”باس کو مکھن لگانے کے سو ایوارڈیافتہ طریقے“، ہمراہ پریکٹیکلز۔ پہلا طریقہ تو ہمارے میں سے کافیوں کے ہاتھ میں نہیں، باقی ننانوے کہیں نا کہیں استعمال ہو سکتے ہیں۔ نوکری میں چاپلوسی کا بھی بڑا کمال ہوتا ہے۔ نالائق بندے کو کام آئے یا نا آئے یہ سب ضرور آتا ہے، سو اسے کام سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ جسکو کام آتا ہے اسے یہ سب نہیں‌آتا، اگر آتا ہے تو بادشاہ ہے جی وہ بندہ۔ جہاں‌ملے جھک کر ملو اور دو چار پپیاں لے لو، پھر شائد یہ موقع نا ملے
ایک میرے جیسا بندہ جسے ناہی کام آتا ہو اور نا یہ ساری اعلٰی حرکتیں، اسکا مستقبل کیا حال بھی تاریک ہے بس۔ میری تو چلو خیر ہے اللہ تعالٰی نے سپیشل بیک اپ لائٹ رکھی میرے نصیب پر لیکن کچھ بیچارے ایسے ہیں کہ یہ مکھن باز کمینے اور ذلیل لوگ انکو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ یہ ایک ہی تاڑ میں رہتے ہیں کہ جہاں موقع ملے بس دوسرے کی ”منجی لگا دو“ اور اس منجی پہ پیر رکھ کر اوپر چڑھ جاؤ۔ جہاں جہاں میں نے نوکری کی وہاں وہاں یہ سیاست تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی پر شکر ہے کہ کبھی اس کے متاثرین میں سے نہیں رہا۔ اس دفتر میں بس ایک آستین کے سانپ سے ڈسا ہی جانے والا تھا کہ اللہ نے بچا لیا۔
خیر جی جو بھی ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ میں تو بچ گیا پر آپ لوگ بھی دھیان رکھا کریں۔ دفتر میں کوئی یاری شاری نہیں ہوتی۔ جتنی دوستیاں ہونی تھیں وہ سکول کالج میں ہو لیں، شائد یونیورسٹی میں بھی۔ اگر دفتر میں سمجھتے ہیں کہ اچھا یار ملے گا تو آپ بہت بڑے پاگل ہیں، اور بالفرض محال مل ہی جاتا ہے تو اس سے بھی بڑے خوش نصیب۔ دفتر میں سب سے سلام دعا رکھو لیکن دوستی، ”ذرا سنبھل کر“۔ ہر کوئی میری طرح خوش نصیب تو نہیں ہوتا نا
تو جناب سلیبس کی تیاری کا کام زور شور سے جاری ہے۔ اگر آپکے ذہن میں ‌بھی کوئی ایسا مضمون ہے جو پڑھایا جانا چاہئے تو اسکے بارے میں بھی بتائیں۔ نیز بتائے گئے مضامین کا مناسب نام بھی تجویز کریں۔
 

جاسمن

لائبریرین
اچھی کارکردگی پر اپنے ساتھیوں اور بعض اوقات اپنے باس کے حسد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اور حاسد بندہ آپ کے لئے سانپ سے زیادہ خطرنا ک ہوتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات باس نے وہ سب کارکردگی اپنے دور میں نہیں دکھائی تھی اور اب آپ کی کارکردگی پر وہ اور چند دوسرے لوگ مل جاتے ہیں تو۔۔۔۔۔ اللہ بچانے والا ہے۔
 
اچھی کارکردگی پر اپنے ساتھیوں اور بعض اوقات اپنے باس کے حسد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اور حاسد بندہ آپ کے لئے سانپ سے زیادہ خطرنا ک ہوتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات باس نے وہ سب کارکردگی اپنے دور میں نہیں دکھائی تھی اور اب آپ کی کارکردگی پر وہ اور چند دوسرے لوگ مل جاتے ہیں تو۔۔۔ ۔۔ اللہ بچانے والا ہے۔
محترم بہن ذرا حاسد سے بچنے کی کوئی تدبیر یا طریقہ تو بتا دیں ، ممنون ہوں گا
 
دفتری سیاست ایک تلخ حقیقت ہے۔۔۔حل اسکا یہی ہے کہ اپنا رویہ کسی کے ساتھ تلخ نہ ہونے دیا جائے، اپنے کام کو بہترین طریقے سے سرانجام دیا جائے،۔۔۔ دوسروں پر کرھنے کی بجائے اپنے آپ کو غیبت، حسد، غصے، نفرت، بیکار گفتگو سے بچاتے ہوئے اپنی کارکردگی کو مسلسل بہتر سے بہتر بنایا جائے اور یہ سب کچھ اپنے آپ کو اور اپنے اللہ کو راضی رکھنے کیلئے کیا جائے۔۔باقی سب مسائل کیلئے پھر اللہ مالک ہے حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔
 
مجھ سے تو یہ سیاستیں یا منافقتیں بالکل بھی نہیں ہوتی ہیں میں تو کھری بات ہرجگہ کرتا ہوں اور جس جگہ دیکھتا ہوں کہ جو بندہ زیادہ پھنے خان ہے تو اس سے جان بوجھ کر پنگے لیتا ہوں اور جدھر دیکھتا ہوں کہ جو بندہ زیادہ خوشامدی ہے تو اسکو ہر بات میں ٹوکنا اور اس پر فضول میں ہر بات پرجرح اور اس کو بات بات پر خوشامدی کا طعنہ دیتا ہوں۔
نتائج: میرے دشمنوں کی کوئی کمی نہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آمنے سامنے کوئی دشمنی مول لینے کی جرآت نہیں کرتا سب چھپے ہوئے ہیں اور ہمیشہ جو بھی وار ہوا ہے اسکا پتہ آسانی سے نہیں چل سکاکہ کس نے کیا اور جب کافی دیرکے بعد پتہ چلتا ہے تو پھر میں بعد میں کسی نہ کسی بہانے سے اس بندے سے لڑ کر دل کا غبار سارا نکال لیتا ہوں اور کچھ لوگوں کو پورے مہینے کا موضوع بھی مل جاتا ہے کہ جی میں نے فلانےکی خوب خبر لی۔
نوٹ: میرا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے کہ جو حق بات ہے یا جو آپ کے دل اور دماغ میں ہے اگلے کے منہ پر اس کو کہو۔ کیونکہ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
درست۔ دفتر میں آپکا کام بہترین کارکردگی دکھانا ہونا چاہئے نہ کہ کام کرنےو الوں کے بارہ میں سیاست کرنا۔ یہ کام آپ محض ایوانوں میں موجود سیاست دانوں پر چھوڑ دیں۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ چاہنے کے باوجود بھی کام نہیں کر سکتے۔ ابھی کچھ برس قبل ایک فننش بندے ایک مقدمہ جیتا تھا کہ اس کے دیگر ساتھی، افسران، ماتحت، سب مل کر اس کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھے۔ کسی نے بھی پورے دن اس سے بات نہیں کرنی، نہ کوئی ای میل بھیجنی، نہ کچھ۔ اسی طرح اس کی فون کالز ایکسچینج سے ڈراپ کرا دینی، ہر ممکن طریقے سے اسے نظر انداز کرنا تھا۔ یہ سلسلہ لگ بھگ دس سال چلا، آخرکار اس بندے نے نوکری چھوڑ کر مقدمہ کیا اور جیت گیا لیکن آج بھی اس کی ذہنی حالت نارمل نہیں ہے
 
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ چاہنے کے باوجود بھی کام نہیں کر سکتے۔ ابھی کچھ برس قبل ایک فننش بندے ایک مقدمہ جیتا تھا کہ اس کے دیگر ساتھی، افسران، ماتحت، سب مل کر اس کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھے۔ کسی نے بھی پورے دن اس سے بات نہیں کرنی، نہ کوئی ای میل بھیجنی، نہ کچھ۔ اسی طرح اس کی فون کالز ایکسچینج سے ڈراپ کرا دینی، ہر ممکن طریقے سے اسے نظر انداز کرنا تھا۔ یہ سلسلہ لگ بھگ دس سال چلا، آخرکار اس بندے نے نوکری چھوڑ کر مقدمہ کیا اور جیت گیا لیکن آج بھی اس کی ذہنی حالت نارمل نہیں ہے
جناب سب کو بھی تو آپ نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں اگر سب نے سماجی مقاطعہ کیا ہے تو ضرور اس کی بھی کچھ وجہ ہوگی
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب سب کو بھی تو آپ نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں اگر سب نے سماجی مقاطعہ کیا ہے تو ضرور اس کی بھی کچھ وجہ ہوگی
وجہ جو بھی ہو، دس سال تک اس طرح کا سلوک؟ اگر اس کا قصور بھی ہوتا تو عدالت اس کے حق میں فیصلہ نہ کرتی
 
Top