سحرش سحر
محفلین
جب دور کہیں سے دلوں کو لبھا نے والی ٹھنڈی ہوا کی ہرمست لہر ، کسی نازک سی پری کی مانند اٹھکیلیاں کھا تی ....جھومتی .....لہراتی ..... ہنستی مسکراتی.... دھرتی کی فضا کے حسین رنگوں کے تعاقب میں..... میدانوں پر سے سر سراتی ہوئی گزر تی ہے اورانجانے میں، دور سامنے مراقبہ میں منہمک ، آہنی پہاڑوں سے ٹکرا تی ہے .... تویہ سخت الوجود مغرور پہاڑ سر اٹھانے کے بجائے اک نگاہ غضب اس پر ڈال کر پلٹ جانے کا حکم صادر کر دیتے ہیں کیونکہ ان سے سر ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
کالے سیاہ دیو قامت پہاڑ........, اس نازک سے لمس کو کیا جانے...... لطیف جذبوں کےخوشگوار احساس کو کیا جانے ۔ وہ کیا جانے کہ وہ کسی کے حسین سپنوں کے آگے حائل ہو گئے ہیں ۔
احساس سے عاری سیاہ پہاڑ ....نازک لطیف محبت بھرے جذبے کیا جانے ۔
یہ سہمی پری اپنےکرچی کرچی جذبوں .... اپنے ریزہ ریزہ خوابوں کو سمیٹے ہانپتے کانپتے پیچھے پلٹتی ہے ۔ کھیت کلیاں ... چمن کے پھولوں... پودوں.. گھاس.... درختوں سے ٹکراتی ہوئی .......گرتے پڑتے پناہ کے لیے بھاگی بھاگی واپس میدانوں کا..... یا .....پھر کسی آبادی کا رخ کر لیتی ہے .....تاکہ ان کالے دیووں کی نگاہ غضب سے اوجھل ہو سکے ۔
یہ پگلی پری آوارہ پھرتی رہتی ہے ...پھرتی رہتی ہے......کسی کی کھوج میں .....کسی کی جستجو میں ....جو اسے محسوس کرے ...جو اسے اپنی روح میں اتار لے..... اور وہ اسی کے سنگ، کہیں دوووور نکل جائے...آزاد فضاؤں کو چیر کر اپنا راستہ بناتے ہوئے ......کہیں دوور نکل جائے ۔
دوووور کسی تنگ گلی کےچھوٹے سے مکان میں..... حسین سپنے بُننے والی ایک نازک سی لڑکی کو اسی پگلی ہوا کے نرم و نازک، لطیف جھونکےچھو تے ہی..... اس کی روح میں اتر جاتے ہیں ........ وہ بھی اپنی حسین پلکوں کےپردے.... اپنی خوبصورت انکھوں پہ گرا کر....سب سےچھپ کر .... اپنے من کی دنیا میں ....اپنے سپنوں کی حسین دنیا میں جانے کے لیے، انھی کے ساتھ ہو لیتی ہے ...ہنستی ...مسکراتی ........قہقہے لگاتی ... پگلی جو ٹھہری....
دووووور کہیں بہت دوووووور.........مستانی ہوا کی آوارہ لہروں کے دوش پر......نیلےگگن کی وسعتوں میں....اڑتے پھرتے پنچیوں کے سنگ.....قوس قزاح کے رنگوں میں نہا کر ....پرنم بادلوں کو چھو کر .....نور کی پھوار میں بھیگ کر.... آزاد فضا کی معطر خوشبووں کو اپنے من میں اتار کر ..... بے خبر اڑتی جاتی ہے .....کہ اچانک................. اس کے آگے کالے سیاہ پہاڑ حائل ہو جاتے ہیں ۔ جن کے دامن میں تاریکیاں ہیں اور اسی تاریکی میں جا بجا گڑھے ہیں ......یا شاید کھدی ہوئی قبریں ہیں .... حسین جذبوں کے تعاقب میں کسی بھولے بھٹکے مسافروں کی منتظر .........قبریں ......
کیا اب اسے اس قبر میں بھی اترنا ہے؟ ؟؟
مگر یہ کمزورپاگل سی لڑکی تو قبردر قبر کی عادی ہے .... یہ جانتی ہے کہ اس کے لیےمشرقی معاشرہ کی پابندیوں کی قد آور فصیلوں کے مابین ایک قبر ہے ....سماجی چار دیوای کے بیچ ایک قبر ہے ...مذہبی آہنی دیواروں کے درمیان ایک قبر ہے ....
....گھر کی تنگ چاردیواری کےبیچ ایک قبرہے اور تو اور خاندانی رواجوں کے خاردار باڑ بھی اس کے مرقد کے گرد موجود ہوتے ہیں .....
نجانے کیوں! وہ اس نئی قبر سے گھبرا کر اپنی پلکیں اٹھا کرآنکھیں کھولتی ہے اور اپنے من کی دنیا سے سہمی سہمی، ہانپتی کانپتی لوٹ آتی ہے ۔ شاید اس نے ان کھدی ہوئی قبروں کے آس پاس تاریکی میں اپنے پیاروں کو ہی اپنامنتظر پایا ہو.......اسے اس نئی قبر میں اتارنے کے لیے ۔
یہ لڑکیاں بھی کتنی پاگل ہوتی ہیں ۔اپنی تاریک قبروں میں بھی سپنوں کے روزن کھولے چھپکے چھپکے جیتی ہیں اور اسی روزن کے راستہ اپنے حسین سپنوں کے سنگ من کی دنیا کی آزادفضاؤں میں ایک اڑان بھر کر اپنے مرقد میں لوٹ آتی ہیں ۔
کاش! کوئی ان کو محسوس کر سکتا ....کوئی ان کے جذبوں کی قدر کرتا ۔
افسوس!کالے سیاہ پہاڑ نازک جذبوں کے لمس کو کیا جانے...... ۔
سحرش سحر
کالے سیاہ دیو قامت پہاڑ........, اس نازک سے لمس کو کیا جانے...... لطیف جذبوں کےخوشگوار احساس کو کیا جانے ۔ وہ کیا جانے کہ وہ کسی کے حسین سپنوں کے آگے حائل ہو گئے ہیں ۔
احساس سے عاری سیاہ پہاڑ ....نازک لطیف محبت بھرے جذبے کیا جانے ۔
یہ سہمی پری اپنےکرچی کرچی جذبوں .... اپنے ریزہ ریزہ خوابوں کو سمیٹے ہانپتے کانپتے پیچھے پلٹتی ہے ۔ کھیت کلیاں ... چمن کے پھولوں... پودوں.. گھاس.... درختوں سے ٹکراتی ہوئی .......گرتے پڑتے پناہ کے لیے بھاگی بھاگی واپس میدانوں کا..... یا .....پھر کسی آبادی کا رخ کر لیتی ہے .....تاکہ ان کالے دیووں کی نگاہ غضب سے اوجھل ہو سکے ۔
یہ پگلی پری آوارہ پھرتی رہتی ہے ...پھرتی رہتی ہے......کسی کی کھوج میں .....کسی کی جستجو میں ....جو اسے محسوس کرے ...جو اسے اپنی روح میں اتار لے..... اور وہ اسی کے سنگ، کہیں دوووور نکل جائے...آزاد فضاؤں کو چیر کر اپنا راستہ بناتے ہوئے ......کہیں دوور نکل جائے ۔
دوووور کسی تنگ گلی کےچھوٹے سے مکان میں..... حسین سپنے بُننے والی ایک نازک سی لڑکی کو اسی پگلی ہوا کے نرم و نازک، لطیف جھونکےچھو تے ہی..... اس کی روح میں اتر جاتے ہیں ........ وہ بھی اپنی حسین پلکوں کےپردے.... اپنی خوبصورت انکھوں پہ گرا کر....سب سےچھپ کر .... اپنے من کی دنیا میں ....اپنے سپنوں کی حسین دنیا میں جانے کے لیے، انھی کے ساتھ ہو لیتی ہے ...ہنستی ...مسکراتی ........قہقہے لگاتی ... پگلی جو ٹھہری....
دووووور کہیں بہت دوووووور.........مستانی ہوا کی آوارہ لہروں کے دوش پر......نیلےگگن کی وسعتوں میں....اڑتے پھرتے پنچیوں کے سنگ.....قوس قزاح کے رنگوں میں نہا کر ....پرنم بادلوں کو چھو کر .....نور کی پھوار میں بھیگ کر.... آزاد فضا کی معطر خوشبووں کو اپنے من میں اتار کر ..... بے خبر اڑتی جاتی ہے .....کہ اچانک................. اس کے آگے کالے سیاہ پہاڑ حائل ہو جاتے ہیں ۔ جن کے دامن میں تاریکیاں ہیں اور اسی تاریکی میں جا بجا گڑھے ہیں ......یا شاید کھدی ہوئی قبریں ہیں .... حسین جذبوں کے تعاقب میں کسی بھولے بھٹکے مسافروں کی منتظر .........قبریں ......
کیا اب اسے اس قبر میں بھی اترنا ہے؟ ؟؟
مگر یہ کمزورپاگل سی لڑکی تو قبردر قبر کی عادی ہے .... یہ جانتی ہے کہ اس کے لیےمشرقی معاشرہ کی پابندیوں کی قد آور فصیلوں کے مابین ایک قبر ہے ....سماجی چار دیوای کے بیچ ایک قبر ہے ...مذہبی آہنی دیواروں کے درمیان ایک قبر ہے ....
....گھر کی تنگ چاردیواری کےبیچ ایک قبرہے اور تو اور خاندانی رواجوں کے خاردار باڑ بھی اس کے مرقد کے گرد موجود ہوتے ہیں .....
نجانے کیوں! وہ اس نئی قبر سے گھبرا کر اپنی پلکیں اٹھا کرآنکھیں کھولتی ہے اور اپنے من کی دنیا سے سہمی سہمی، ہانپتی کانپتی لوٹ آتی ہے ۔ شاید اس نے ان کھدی ہوئی قبروں کے آس پاس تاریکی میں اپنے پیاروں کو ہی اپنامنتظر پایا ہو.......اسے اس نئی قبر میں اتارنے کے لیے ۔
یہ لڑکیاں بھی کتنی پاگل ہوتی ہیں ۔اپنی تاریک قبروں میں بھی سپنوں کے روزن کھولے چھپکے چھپکے جیتی ہیں اور اسی روزن کے راستہ اپنے حسین سپنوں کے سنگ من کی دنیا کی آزادفضاؤں میں ایک اڑان بھر کر اپنے مرقد میں لوٹ آتی ہیں ۔
کاش! کوئی ان کو محسوس کر سکتا ....کوئی ان کے جذبوں کی قدر کرتا ۔
افسوس!کالے سیاہ پہاڑ نازک جذبوں کے لمس کو کیا جانے...... ۔
سحرش سحر
آخری تدوین: