قرۃالعین اعوان
لائبریرین
اگر مجھ سے کوئی یہ سوال کرے کہ اس دنیا کی نازک اور قیمتی ترین چیز کیا ہے تو میں پلک جھپکتے میں جواب دوں گی کہ اس دنیا کی سب سے نازک ،خوبصورت اور قیمتی ترین چیز دل ہے۔
دل احساس کا پیمانہ ہے۔ نازک اتنا جیسے کوئی آبگینہ ذرا سی ٹھیس لگتے ہی ہزاروں کرچیوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ قیمتی اتنا کہ گویا دنیا جہان کے خزانوں کا بادشاہ۔۔!
اک بار ٹوٹ جائے تو کبھی پہلے جیسی حالت میں واپس نہیں آتا۔کھو جائے تو اس کا ملنا ناممکن۔
دنیا کی ہر خوبصورتی دل سے وابستہ۔دل خوش ہو تو جیسے اندھیرے بھی روشن دکھائی دینے لگتے ہیں۔ دل غمگین ہو تو آس پاس کا ہر خوبصورت منظر مدھم اور پھیکا دکھائی دینے لگتا ہے۔
کائنات کی سب سے قیمتی شے کے بارے میں سوچتے سوچتے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ ارزاں کس چیز کو سمجھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ بے قیمت اور ٹھوکروں پر رکھی جانے والی چیز کیا ہے تو جواب پھر پہلے جیسا آیا کہ وہ دل ہے جس کی ناقدری سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔
ہم بات کرتے ہوئے،معاملات برتتے ہوئے کبھی کسی کے دل کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی دینی چاہیئے۔ دل اللہ کا گھر،ہر پاکیزہ احساس کا گھر!
شکستہ دلوں کی شکستگی سے بہت ڈرنا چاہیئے۔
بس یہ زندگی کا سفر کاٹتے ہوئے سب سے زیادہ احساس دلوں کا کرنا چاہیئے۔
قدم قدم پر یہ سوچ کہ کہیں ایسا تو نہیں کسی کی دل آزاری ہوئی،کہیں ایسا تو نہیں کوئی دل مرجھا گیا
کہیں ایسا تو نہیں کسی کا دل چپ ہوگیا،کہیں ایسا تو نہیں کسی کا دل زار زار رویا،کہیں ایسا تو نہیں کسی دل کو ہم نے مایوس کردیا۔
مجھے تو ایسا لگتا ہے یہ دل ٹوٹ جائیں تو بہت نقصان ہوتا ہے۔ دل روٹھ جائیں تو حبس چھاجاتا ہے پھر سانس رکنے لگتی ہے دم گھٹنے لگتا ہے۔
مجھے لگتا ہے ہم دنیا میں عالم فاضل ہوجائیں، ذہانت کی حدون کو پار کر لیں،ہم میں بہت سی خوبیاں یکجا ہوجائیں لیکن ہم نے دلوں کو سنبھالنے کا ہنر نہیں سیکھا تو گویا ہم نے کچھ نہیں سیکھا
دل ایسی قیمتی چیز کی قدر کرنا ہی نہ آئی تو بھلا کس بات کی حقیقت پائی؟
خزانوں کی کنجی کی حفاظت ہی نہ کی تو سب ہی کچھ گنوا دیا۔
خسارہ بویا ! اگر مرجھائے ہوئے کسی دل کی آبیاری نہ کرسکے۔
پھر پایا تو کیا پایا؟
جانا تو کیا جانا؟
یہ دل معصوم پرندہ ہے،اسے ڈرادیا جائے تو کبھی اونچی اڑان نہیں بھر سکتا۔
یہ دل پھولوں کی مانند نازک ہے،اس کی حفاظت نہ کی جائے تو آن کی آن میں مرجھا کر شاخ سے جدا ہوجاتا ہے۔
کسی کا دل مت دکھائیں کیونکہ دل دکھانا ملال پانا ہے۔
کسی مرجھائے ہوئے دل کی حاظت کرنا گویا ہفت اقلیم کی دولت پانا ہے۔
کسی کے دل کی آبیاری کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم نے ایسی تجارت کی جس میں نفع ہی نفع ہے
خسارہ نہیں،نقصان نہیں رنج نہیں غم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!
دلوں کو گرد سے بچایئے پھر دیکھئے یہ کیسے آئینہ بن کر حقیقتوں سے روشناس کروانے لگتا ہے۔
دل احساس کا پیمانہ ہے۔ نازک اتنا جیسے کوئی آبگینہ ذرا سی ٹھیس لگتے ہی ہزاروں کرچیوں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ قیمتی اتنا کہ گویا دنیا جہان کے خزانوں کا بادشاہ۔۔!
اک بار ٹوٹ جائے تو کبھی پہلے جیسی حالت میں واپس نہیں آتا۔کھو جائے تو اس کا ملنا ناممکن۔
دنیا کی ہر خوبصورتی دل سے وابستہ۔دل خوش ہو تو جیسے اندھیرے بھی روشن دکھائی دینے لگتے ہیں۔ دل غمگین ہو تو آس پاس کا ہر خوبصورت منظر مدھم اور پھیکا دکھائی دینے لگتا ہے۔
کائنات کی سب سے قیمتی شے کے بارے میں سوچتے سوچتے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ ارزاں کس چیز کو سمجھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ بے قیمت اور ٹھوکروں پر رکھی جانے والی چیز کیا ہے تو جواب پھر پہلے جیسا آیا کہ وہ دل ہے جس کی ناقدری سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔
ہم بات کرتے ہوئے،معاملات برتتے ہوئے کبھی کسی کے دل کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی دینی چاہیئے۔ دل اللہ کا گھر،ہر پاکیزہ احساس کا گھر!
شکستہ دلوں کی شکستگی سے بہت ڈرنا چاہیئے۔
بس یہ زندگی کا سفر کاٹتے ہوئے سب سے زیادہ احساس دلوں کا کرنا چاہیئے۔
قدم قدم پر یہ سوچ کہ کہیں ایسا تو نہیں کسی کی دل آزاری ہوئی،کہیں ایسا تو نہیں کوئی دل مرجھا گیا
کہیں ایسا تو نہیں کسی کا دل چپ ہوگیا،کہیں ایسا تو نہیں کسی کا دل زار زار رویا،کہیں ایسا تو نہیں کسی دل کو ہم نے مایوس کردیا۔
مجھے تو ایسا لگتا ہے یہ دل ٹوٹ جائیں تو بہت نقصان ہوتا ہے۔ دل روٹھ جائیں تو حبس چھاجاتا ہے پھر سانس رکنے لگتی ہے دم گھٹنے لگتا ہے۔
مجھے لگتا ہے ہم دنیا میں عالم فاضل ہوجائیں، ذہانت کی حدون کو پار کر لیں،ہم میں بہت سی خوبیاں یکجا ہوجائیں لیکن ہم نے دلوں کو سنبھالنے کا ہنر نہیں سیکھا تو گویا ہم نے کچھ نہیں سیکھا
دل ایسی قیمتی چیز کی قدر کرنا ہی نہ آئی تو بھلا کس بات کی حقیقت پائی؟
خزانوں کی کنجی کی حفاظت ہی نہ کی تو سب ہی کچھ گنوا دیا۔
خسارہ بویا ! اگر مرجھائے ہوئے کسی دل کی آبیاری نہ کرسکے۔
پھر پایا تو کیا پایا؟
جانا تو کیا جانا؟
یہ دل معصوم پرندہ ہے،اسے ڈرادیا جائے تو کبھی اونچی اڑان نہیں بھر سکتا۔
یہ دل پھولوں کی مانند نازک ہے،اس کی حفاظت نہ کی جائے تو آن کی آن میں مرجھا کر شاخ سے جدا ہوجاتا ہے۔
کسی کا دل مت دکھائیں کیونکہ دل دکھانا ملال پانا ہے۔
کسی مرجھائے ہوئے دل کی حاظت کرنا گویا ہفت اقلیم کی دولت پانا ہے۔
کسی کے دل کی آبیاری کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم نے ایسی تجارت کی جس میں نفع ہی نفع ہے
خسارہ نہیں،نقصان نہیں رنج نہیں غم نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!
دلوں کو گرد سے بچایئے پھر دیکھئے یہ کیسے آئینہ بن کر حقیقتوں سے روشناس کروانے لگتا ہے۔