فرحت کیانی
لائبریرین
خُدا ہے اور میں ہُوں
دلِ بے مُدعا ہے اور میں ہُوں
مگر لب پر دُعا ہے اور میں ہُوں
نہ ساقی ہے نہ اب وہ شے ہے باقی
مرا دور آ گیا ہے اور میں ہُوں
اُدھر دنیا ہے اور دنیا کے بندے
اِدھر میرا خُدا ہے اور میں ہُوں
کوئی پُرساں نہیں پیرِ مغاں کا
فقط میری وفا ہے اور میں ہُوں
ابھی میعاد باقی ہے ستم کی
محبت کی سزا ہے اور میں ہُوں
نہ پوچھو حال میرا ، کچھ نہ پوچھو
کہ تسلیم و رضا ہے اور میں ہُوں
یہ طولِ عمر نامعقول و بے کیف
بزرگوں کی دعا ہے اور میں ہُوں
لہو کے گھونٹ پینا اور جینا
مسلسل اک مزہ ہے اور میں ہُوں
حفیظ ایسی فلاکت کے دنوں میں
فقط شُکرِ خُدا ہے اور میں ہُوں
کلام: حفیظ جالندھری
1922ء
دلِ بے مُدعا ہے اور میں ہُوں
مگر لب پر دُعا ہے اور میں ہُوں
نہ ساقی ہے نہ اب وہ شے ہے باقی
مرا دور آ گیا ہے اور میں ہُوں
اُدھر دنیا ہے اور دنیا کے بندے
اِدھر میرا خُدا ہے اور میں ہُوں
کوئی پُرساں نہیں پیرِ مغاں کا
فقط میری وفا ہے اور میں ہُوں
ابھی میعاد باقی ہے ستم کی
محبت کی سزا ہے اور میں ہُوں
نہ پوچھو حال میرا ، کچھ نہ پوچھو
کہ تسلیم و رضا ہے اور میں ہُوں
یہ طولِ عمر نامعقول و بے کیف
بزرگوں کی دعا ہے اور میں ہُوں
لہو کے گھونٹ پینا اور جینا
مسلسل اک مزہ ہے اور میں ہُوں
حفیظ ایسی فلاکت کے دنوں میں
فقط شُکرِ خُدا ہے اور میں ہُوں
کلام: حفیظ جالندھری
1922ء