دلِ دہقاں جو کھیتوں میں نہیں ہے

سارہ خان

محفلین
دلِ دہقاں جو کھیتوں میں نہیں ہے
تقّدس اب وہ فصلوں میں نہیں ہے

سفر کرتے ہیں لیکن بے دلی سے
یقیں شامل ارادوں میں نہیں ہے

ہمارے عہد کے وہ مسئلے ہیں کہ
جن کا حل کتابوں میں نہیں ہے

جو ظالم ہے ، اُسے ظالم ہی کہہ دیں
خلُوص اِتنا بھی لوگوں میں نہیں ہے

ہوائیں سنسناتی پھر رہی ہیں
کوئی چہرہ دریچوں میں نہیں ہے

جسے ہم قید کرنا چاہتے ہیں
وہی اک لمحہ، لمحوں میں نہیں ہے

چھلک جائیں تو آسُودہ ہوں آنکھیں
مگر ہمت ہی اشکوں میں نہیں ہے

نئی قاموسِ غم لکھتا ہوں باقی
اثر اب کہنہ لفظوں میں نہیں ہے

باقی احمد پوری
 
Top