طارق شاہ
محفلین
فراق گورکھپوری
غزل
دل افسُردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
کسی کا درد اُٹّھے جن میں وہ راتیں نہیں ہوتیں
ہم آہنگی بھی تیری دُورئ قربت نُما نِکلی
کہ تجھ سے مِل کے بھی تجھ سے مُلاقاتیں نہیں ہوتیں
یہ دَورِ آسماں بدلا، کہ اب بھی وقت پر بادل !
برستے ہیں، مگر اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں
زبان و گوش کی ناکامیوں کا کچُھ ٹِھکانا ہے !
کہ باتیں ہو کے بھی تجھ سے کبھی باتیں نہیں ہوتیں
وہ عالم اور ہی ہے جس میں گہری نیند آتی ہے
خوشی وغم میں سونے کے لئے راتیں نہیں ہوتیں
ارے واعظ ، تِری رسمِ عبادت میں دھرا کیا ہے
نگاہیں اہلِ دل کی ، کب مناجاتیں نہیں ہوتیں
سمجھ کچھ راز حُسن وعِشق کے شبہائے فُرقت میں
کہ رونے کے لئے یہ دُکھ بھری راتیں نہیں ہوتیں
سبب کچھ اور ہے ، یا اتفاقاتِ زمانہ ہیں
کہ اب تجھ سے بھی، پہلی سی مُلاقاتیں نہیں ہوتیں
فراق اِس دَور کے اہلِ نظر سے ہے پیام اپنا
حقائق ہوتے ہیں اشعار میں باتیں نہیں ہوتیں
رگھوپتی سہائے، فراق گورکھپوری