نوید ناظم
محفلین
دل اُس سے بچھڑ کر بہل کیوں گیا ہے
یہ کم ظرف اتنا بدل کیوں گیا ہے
وہ جس نے مِرے گھر کو چنگاری دی تھی
وہ اب پوچھتا ہے کہ جل کیوں گیا ہے
مِری شب کو امید جس سے لگی تھی
وہ سورج کہیں دُور ڈھل کیوں گیا ہے
محبت نہیں ہے اگر اُس کو مجھ سے
مرا نام سن کر مچل کیوں گیا ہے
تری یاد کا اژدہا مجھ کو آخر
نگلتا نگلتا نگل کیوں گیا ہے
یہ پیتا رہا خون قلب و جگر سے
نہ پوچھو کہ غم مجھ میں پل کیوں گیا ہے
یہ کم ظرف اتنا بدل کیوں گیا ہے
وہ جس نے مِرے گھر کو چنگاری دی تھی
وہ اب پوچھتا ہے کہ جل کیوں گیا ہے
مِری شب کو امید جس سے لگی تھی
وہ سورج کہیں دُور ڈھل کیوں گیا ہے
محبت نہیں ہے اگر اُس کو مجھ سے
مرا نام سن کر مچل کیوں گیا ہے
تری یاد کا اژدہا مجھ کو آخر
نگلتا نگلتا نگل کیوں گیا ہے
یہ پیتا رہا خون قلب و جگر سے
نہ پوچھو کہ غم مجھ میں پل کیوں گیا ہے