دل بے تاب گمانوں میں گهرا رہتا ہے - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

دل بے تاب گمانوں میں گهرا رہتا ہے
جو ترے لب پہ کوئی حرف دهرا رہتا ہے

موسم گل کی نہ پت جھڑ کی خبر ہوتی ہے
زخم دل اپنا سبهی رت میں ہرا رہتا ہے

نقش مبہم کوئی چہرہ ہے تخیل میں مرے
مری آنکھوں میں جو اشکوں سا بهرا رہتا ہے

ایک آہٹ مری دهڑکن میں بسی ہے کب سے
ایک لمحہ ہے جو پلکوں پہ دهرا رہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
بہت اچھے بیٹا۔ بس مطلع کا قافیہ دیکھ لو۔ دوسرے قوافی میں دھ، بھ پر زبر ہے، لیکن مطلع میں پہلے مصرع میں زیر!! ’گھِرا‘ قافیہ بدل دو۔ اور کوئی غلطی نظر نہیں آ رہی ہے پہلی نظر میں تو
 

عؔلی خان

محفلین
زخم دل اپنا سبهی رت میں ہرا رہتا ہے​

کو اگر

زَخمِ دِل اَپنا ہر اِک رُت میں ہَرا رہتا ہے​
کر لیا جا ئے تو مزید وضاحت ہو جائے گی۔ شکریہ- :)
 
Top