سعید احمد سجاد
محفلین
محترم سر الف عین
عظیم
محمد ریحان قریشی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
ڈوبتی سانس میں اُس کو جو پکارا ہوتا۔
دل سے امید کا کچھ بوجھ اتارا ہوتا۔
اسقدر آج میں مایوس نہ ہوتا کہ اگر۔
زلفِ جاناں کی ہراک لٹ کو سنوارا ہوتا۔
سنگ یاروں کے اترتا مَیں سمندر میں کاش
ڈوبتی ناؤ، نہ یوں دور کنارا ہوتا۔
سرد راتوں میں ٹھٹھرتا جو ہوں مَیں زیرِ فلک۔
کاش سوچوں میں امیدوں کا شرارا ہوتا۔
نا امیدی کے اندھیروں میں جو ڈرتا ہے دل
اپنے دامن میں بھی جگنو کوئی تارا ہوتا۔
عظیم
محمد ریحان قریشی
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
ڈوبتی سانس میں اُس کو جو پکارا ہوتا۔
دل سے امید کا کچھ بوجھ اتارا ہوتا۔
اسقدر آج میں مایوس نہ ہوتا کہ اگر۔
زلفِ جاناں کی ہراک لٹ کو سنوارا ہوتا۔
سنگ یاروں کے اترتا مَیں سمندر میں کاش
ڈوبتی ناؤ، نہ یوں دور کنارا ہوتا۔
سرد راتوں میں ٹھٹھرتا جو ہوں مَیں زیرِ فلک۔
کاش سوچوں میں امیدوں کا شرارا ہوتا۔
نا امیدی کے اندھیروں میں جو ڈرتا ہے دل
اپنے دامن میں بھی جگنو کوئی تارا ہوتا۔