دل سے کسی کی یاد بھلائی نہ جا سکی--برائے اصلاح

الف عین
عظیم
فلسفی
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
دل سے کسی کی یاد بھلائی نہ جا سکی
تصویر تھی جو دل میں مٹائی نہ جا سکی
-------------
جس کے لئے خرید کے رکھی تھی بندیا
اس کی کبھی بھی مانگ سجائی نہ جا سکی
-----------
مجھ کو ملی کبھی نہ محبّت کی روشنی
یہ آگ اس کے دل میں جلائی نہ جا سکی
---------------
دنیا نے لاکھ بار ستایا ہمیں مگر
ہاتھوں سے میرے اس کی کلائی نہ جا سکی
-------------
جو عادتیں پڑی تھیں وہ چھوٹی کبھی نہیں
عادت وفا کی دل سے مٹائی نہ جا سکی
--------------------
ارشد نے اس جہاں سے محبّت تو کی نہیں
الفت خدا کی دل سے بھلائی نہ جا سکی
------------------
 

الف عین

لائبریرین
دل سے کسی کی یاد بھلائی نہ جا سکی
تصویر تھی جو دل میں مٹائی نہ جا سکی
------------- دونوں مصرعوں میں 'دل' کی تکرار اچھی نہیں، پہلے میں 'مجھ' کر دیں،

جس کے لئے خرید کے رکھی تھی بندیا
اس کی کبھی بھی مانگ سجائی نہ جا سکی
----------- بندیا میں ن معلنہ نہیں، غنہ ہے
بندیا خرید لائے تھے جس کے لیے کبھی
کیا جا سکتا ہے، لیکن َای ٹیکنیکل مسئلہ ہے، بندیا پیشانی پر لگائی جاتی ہے، مانگ میں نہیں

مجھ کو ملی کبھی نہ محبّت کی روشنی
یہ آگ اس کے دل میں جلائی نہ جا سکی
--------------- دو لخت لگتا ہے

دنیا نے لاکھ بار ستایا ہمیں مگر
ہاتھوں سے میرے اس کی کلائی نہ جا سکی
-------------
جو عادتیں پڑی تھیں وہ چھوٹی کبھی نہیں
عادت وفا کی دل سے مٹائی نہ جا سکی
-------------------- عادت کی تکرار!
جو عادتیں پڑی تھیں وہ چھوٹی نہیں کبھی
اس کی وفا تھی دل میں، مٹائی نہ جا سکی
بہتر ہو گا

ارشد نے اس جہاں سے محبّت تو کی نہیں
الفت خدا کی دل سے بھلائی نہ جا سکی
------------------ یہ بھی دو لخت ہے
جو اشعار درست ہو گئے ہیں ان میں بھی خیال کوئی نیا نہیں، وہی آپ کے پسندیدہ اور ہر غزل میں دہرانے جانے والے تخیلات ہیں
 
Top