دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا
سر سے جمالِ یار کا سایہ نہیں گیا
کب ہے وصالِ یار کی محرومیوںکا غم
یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا
میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت
مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا
وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا
مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا
ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں
ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا
اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ
اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا
(سعداللہ شاہ)
سر سے جمالِ یار کا سایہ نہیں گیا
کب ہے وصالِ یار کی محرومیوںکا غم
یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا
میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت
مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا
وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا
مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا
ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں
ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا
اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ
اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا
(سعداللہ شاہ)