دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا (سعداللہ شاہ)

ساجن

محفلین
دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا
سر سے جمالِ یار کا سایہ نہیں گیا

کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں‌کا غم
یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا

میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت
مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا

وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا
مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا

ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں
ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا

اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ
اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا

(سعداللہ شاہ)​
 

محمد وارث

لائبریرین
میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت
مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا

اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ
اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا

واہ، لاجواب۔

بہت شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے!
 
Top