دل سے کہدو کہ جستجو نا کرے غزل نمبر 55 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب​
دل سے کہدو کہ جستجو نا کرے
ان کو پانے کی آرزو نا کرے

آج پھر دل اداس ہے اپنا
کوئی بھی ہم سے گفتکو نا کرے

ہم خوشی سے کہیں نہ مرجائیں
بات ہم سے یوں روبرو نا کرے

بے تکلفی سے ہمیں نفرت ہے
آپ رہنے دیں ہمیں تُو نا کرے

عشق والوں سے یہ گزارش ہے
حُسن کو رسوا چار سو نا کرے

عشق پہ رحم حسینانِ جہاں
اس طرح حُسن کا جادو نا کرے

بھوک لوگو مٹاؤ بھوکوں کی
چاک دامن بھلے رفو نا کرے

ظلمتِ شب بتا کیا چاہتی ہے
روشنی کیا کوئی جگنو نا کرے

مجھے جینے کی دعا حاصل ہے
بدعا مرنے کی عدُو نا کرے

شان کیا خوب ہے مجاہد کی
جنگ میں ہو اگر وضو نا کرے

عشقِ رب میں بہا صنم پہ نہیں
رائیگاں اپنے یہ آنسو نا کرے

وہ تو نزدیک ہے شہ رگ سے بھی
رب تلاش یار کوبکو نا کرے

میں ولی بن نہیں سکتا شارؔق
جب تلک قلب اللہ ہُو نا کرے
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تو یہی کہوں کہ 'نا' صرف تاکیدی لفظ کے بطور استعمال ہوتا ہے، نفی کے لیے 'نہ' ہی درست ہے، اور اس غزل میں بہر حال 'نہ' کا نہ صرف مھل ہے ردیف میں بلکہ نا سے تو تقطیع ہی گڑبڑا جاتی ہے۔ تقطیع میں 'نکرے' = فعلن آتا ہے۔ بس کچھ مصرعے اس وزن یعنی فاعلاتن مفاعلن فعلن میں فٹ نہیں ہوتے۔
پہلے تینوں اشعار نہ کرے کے ساتھ درست ہیں۔ صرف تیسرے شعر میں فاعل کون ہے جس کے ساتھ کرے استعمال کیا گیا ہے۔ بات وہ ہم سے... سے درست ہو جاتا ہے
بے تکلفی سے ہمیں نفرت ہے
آپ رہنے دیں ہمیں تُو نا کرے
.. دونوں مصرعے بحر سے خارج

عشق والوں سے یہ گزارش ہے
حُسن کو رسوا چار سو نا کرے
.. بحر درست، لیکن رسوا کا الف گر رہا ہے

عشق پہ رحم حسینانِ جہاں
اس طرح حُسن کا جادو نا کرے
... یہ بحر ہی بدل گئی، فاعلاتن فعلاتن فعلن دوسری بحر ہے
'پہ' کی جگہ 'پر' لگانے ہر۔ 'پہ' فارسی کی استعمال کرنا فصیح ہے جس کے معنی لیکن ہوتے ہیں۔

بھوک لوگو مٹاؤ بھوکوں کی
چاک دامن بھلے رفو نا کرے
.. کرے کس کے لئے استعمال کیا گیا ہے؟ لوگو کے لئے ہو تو جمع ہے، کریں آنا چاہئے

ظلمتِ شب بتا کیا چاہتی ہے
روشنی کیا کوئی جگنو نا کرے
... دونوں مصرعے بحر سے خارج

مجھے جینے کی دعا حاصل ہے
بدعا مرنے کی عدُو نا کرے
... پہلا مصرع فاعلاتن فعلاتن فعلن ہو گیا
دوسرا درست بحر ہے لیکن مرنے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں

شان کیا خوب ہے مجاہد کی
جنگ میں ہو اگر وضو نا کرے
... درست بحر لیکن مفہوم؟

عشقِ رب میں بہا صنم پہ نہیں
رائیگاں اپنے یہ آنسو نا کرے
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج

وہ تو نزدیک ہے شہ رگ سے بھی
رب تلاش یار کوبکو نا کرے
.. دونوں مصرعے بحر سے خارج

میں ولی بن نہیں سکتا شارؔق
جب تلک قلب اللہ ہُو نا کرے
.. پہلا مصرع بحر سے خارج
 

امین شارق

محفلین
پہلے تو یہی کہوں کہ 'نا' صرف تاکیدی لفظ کے بطور استعمال ہوتا ہے، نفی کے لیے 'نہ' ہی درست ہے، اور اس غزل میں بہر حال 'نہ' کا نہ صرف مھل ہے ردیف میں بلکہ نا سے تو تقطیع ہی گڑبڑا جاتی ہے۔ تقطیع میں 'نکرے' = فعلن آتا ہے۔ بس کچھ مصرعے اس وزن یعنی فاعلاتن مفاعلن فعلن میں فٹ نہیں ہوتے۔
پہلے تینوں اشعار نہ کرے کے ساتھ درست ہیں۔ صرف تیسرے شعر میں فاعل کون ہے جس کے ساتھ کرے استعمال کیا گیا ہے۔ بات وہ ہم سے... سے درست ہو جاتا ہے
بے تکلفی سے ہمیں نفرت ہے
آپ رہنے دیں ہمیں تُو نا کرے
.. دونوں مصرعے بحر سے خارج

عشق والوں سے یہ گزارش ہے
حُسن کو رسوا چار سو نا کرے
.. بحر درست، لیکن رسوا کا الف گر رہا ہے

عشق پہ رحم حسینانِ جہاں
اس طرح حُسن کا جادو نا کرے
... یہ بحر ہی بدل گئی، فاعلاتن فعلاتن فعلن دوسری بحر ہے
'پہ' کی جگہ 'پر' لگانے ہر۔ 'پہ' فارسی کی استعمال کرنا فصیح ہے جس کے معنی لیکن ہوتے ہیں۔

بھوک لوگو مٹاؤ بھوکوں کی
چاک دامن بھلے رفو نا کرے
.. کرے کس کے لئے استعمال کیا گیا ہے؟ لوگو کے لئے ہو تو جمع ہے، کریں آنا چاہئے

ظلمتِ شب بتا کیا چاہتی ہے
روشنی کیا کوئی جگنو نا کرے
... دونوں مصرعے بحر سے خارج

مجھے جینے کی دعا حاصل ہے
بدعا مرنے کی عدُو نا کرے
... پہلا مصرع فاعلاتن فعلاتن فعلن ہو گیا
دوسرا درست بحر ہے لیکن مرنے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں

شان کیا خوب ہے مجاہد کی
جنگ میں ہو اگر وضو نا کرے
... درست بحر لیکن مفہوم؟

عشقِ رب میں بہا صنم پہ نہیں
رائیگاں اپنے یہ آنسو نا کرے
.. دوسرا مصرع بحر سے خارج

وہ تو نزدیک ہے شہ رگ سے بھی
رب تلاش یار کوبکو نا کرے
.. دونوں مصرعے بحر سے خارج

میں ولی بن نہیں سکتا شارؔق
جب تلک قلب اللہ ہُو نا کرے
.. پہلا مصرع بحر سے خارج
بہت شکریہ سر آپ نے توجہ دی میں نے تمام باتیں نوٹ کرلی ہیں جو آپ نے سمجھائی ہے۔
 
Top