طارق شاہ
محفلین
غزلِ
میرزا یاس یگانہ
دل عجب جلوۂ اُمّید نظر آتا ہے مجھے
شام سے یاس سویرا نظر آتا ہے مجھے
جلوۂ دارورسن اپنے نصیبوں میں کہاں
کون دنیا کی نگاہوں پہ چڑھاتا ہے مجھے
دل کو لہراتا ہے ہنگامۂ زندانِ بَلا
شورِایذا طلبی وجْد میں لاتا ہے مجھے
پائے آزاد ہے زنداں کے چلن سے باہر
بیڑیاں کیوں کوئی دیوانہ پنھاتا ہے مجھے
ہنس کے کہتا ہے کہ گھر اپنا قفس کوسمجھو
سبق اُلٹا مِرا صیّاد پڑھاتا ہے مجھے
جیسے دوزخ کی ہَوا کھا کے ابھی آیا ہو
کس قدر واعظِ مکاّر ڈراتا ہے مجھے
پھٹ پڑیں اب بھی دروبام تو پردہ رہ جائے
فلکِ خانہ خراب آنکھ دکھاتا ہے مجھے
دیدنی ہے چمن آرائیِ چشمِ عبرت
سیرِتازہ گُلِ پژمُردہ دِکھاتا ہے مجھے
ترکِ مطلب سے ہے مطلب تو دعائیں کیسی؟
صبح تک کیوں دلِ بیمارجگاتا ہے مجھے
ننگِ محفل مِرا زندہ، مِرا مُردہ بھاری
کون اُٹھاتا ہے مجھے، کون بٹھاتا ہے مجھے
لبِ دریا کا ہُوا میں نہ تہِ دریا کا
کون سے گھاٹ یہ دھارا لیے جاتا ہے مجھے
پاؤں سوئے ہیں مگر جاگتے ہیں اپنے نصیب
کیا سمجھ کر جَرَسِ گُنگ جگاتا ہے مجھے
یاس منزل ہے مِری منزلِ عنقائے کمال
لکھنؤ میں کوئی کیوں ڈھونڈنے آتا ہے مجھے
میرزا یاس یگانہ چنگیزی
("پنھاتا" بمعنی پہناتا اب متروک ہے)