مغزل
محفلین
دل عظیم آبادی
از: احتشام انور
دل جس پہ علم و عشق کے عُقدے کھلے نہ ہوں
مطلب سمجھ سکے نہ میری داستان کا
جسونت رائے ناگر گجراتی برہمن کے بیٹے نے اسلام قبول کیا اور شیخ محمد عابد کے نام سے سرفراز ہوئے،یہی شیخ محمد عابد آگے چل کر دل عظیم آبادی کہلائے۔ معروف تذکرے طبقات الشعراءکے علاوہ تذکرہ شعرائے اردو ا ز میر حسن میں آپ کا ذکر موجود ہے۔تذکرہ ِشورش عظیم آبادی، تذکرہِ مسرت افزا اور گلزار ابراہیم خلیل بھی ان کے ذکر سے معمورنظر آتے ہیں۔دل عظیم آبادی کے معاصرین سخن وروں میں مشہور ترین شعراء سید جبار علی، رئیسِ چنار گڑھ بسمل متخلص جو مدت دراز تک عظیم آباد میں رہے۔خواجہ میر درددہلوی ،میر تقی میر، مرزامحمد رفیع سودا،شیخ محمد روشن جوشش(یہ سگے بھائی تھے اور انھوں نے بھی دل کے ساتھ ہی اسلام قبول کیا تھا)، میر وارث علی نالاں، سیدحبیب اللہ تحسین، اشرف علی خاں فغاں،محمد قلی خاں مشتاق۔ ان کے دیوان کی بازیابی و بازیافت میں سید وصی احمد بلگرامی اور مرتب محمد ظفیر الحسن کے ساتھ ہی اگر مہر نیمروز کے مدیر اعلیٰ ادیب شہیر جناب حسن مثنی ٰ ندوی کی ذاتی دل چسپیاں شامل نہ ہوتیں تو آج کسی کو کیاپتا چلتا کہ عظیم آباد میں ایک ایسا شاعر بھی گزرا ہے جو خواجہ میر درد،مرزا رفیع سودا اور میر تقی میر کا ہمعصر تھا اور جس نے ان کے سامنے نہ صرف اپنا کلام سنایا بلکہ داد بھی پائی!
داد چاہے تو دل اپنی، یہ غزل واں پڑھنا
کہ جہاں درد ہو، سودا ہو اور میر بھی ہو
ملئے گا جو میر سے کبھی دل
اپنی بھی غزل سنا ئےے گا
کوثر چاندپوری لکھتے ہیں کہ شاعری کی یہ بہت پرانی خصوصیت ہے کہ بعد میں آنے والے شعراءنے پہلے شاعروں کے افکاروخیالات سے فائدہ اٹھایا ہے اور ان کے چراغ ِ تخیل کی لَو سے اپنے شعور میں نئی شمع جلائی ہے ۔یہی طریقہ عرب کے شعراءو فصحا میں بھی رہا ہے کہ خیال مستعار لے کر اپنے شاعرانہ تصرفات نیز اسلوب کے سانچہ میں ڈھال کر اسے اپنے مخصوص اندازِ بیاں، لہجہ اور آہنگ میں پیش کردےا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاغالب نے بھی دل عظیم آبادی کا تتّبع کیا۔
جی میں ہے اب کسی کی سنئے نہ اپنی کہئے
یک کنجِ عافیت میں چپکے ہو بیٹھ رہئے(دل)
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو(غالب)
گوہر ِ مقصود تو کیا خاک ہاتھ آوے گا دل
عشق میں اس کے نظر آتا ہے سودا جان کا(دل)
فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہوجائے گا( غالب)
اتنا بھی غرورِ خوش نمانئیں
سنتے ہو، کسی کا کوئی خدا نہیں [دل]
زندگی اپنی جو اس طور سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد رکھیں گے کہ خدارکھتے تھے(غالب)
دل کا جو کلام ہمیں دستیاب ہوسکا وہ صرف ان کا ایک قلمی نسخہ ہے جو نواب مہدی علی خاں نے سنہ 1315ھ میں خریدا تھاجس کے صفحات کی تعداد 160 اور اس میں موجود کلام میں غزلیں 323 ( صفحہ1سے 156،تعدادِ ابےات 6016)، قطعات6 اور رباعیات کی تعداد 16ہیں جبکہ اس دیوان کی کتابت تقریبا دو سو سال قبل ہوئی۔ گو دل نے تعلیم و تربیت کہاں سے پائی، نشونما کہاں ہوئی، فنِ سخن میں کس کے شاگرد تھے اس کی کچھ خبر نہیں، البتہ تذکرہ نگاروں نے ان کی علمی قابلیت کی نہ صرف ستائش کی بلکہ سب ہی ان کی صلاحیت کے معترف تھے، مثلا شورش عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ،در علم عربی و فارسی علی الخصوص در ہیئت و حساب صاحب استعداد ۔ دل شعر گوئی کے ساتھ ساتھ عروض و قافیہ کے فن سے بھی واقفیت رکھتے تھے اور بقول عشقی کے قواعدِ عروض پر ایک کتاب بھی “عروض الہندی“کے نام سے لکھی۔ الغرض پچاسوں ایسے اشعار ہم یہاں نقل کرسکتے ہیں تاہم دل کی ایک غزل دیکھیں اور انھیں یاد کریں۔
زلفوں سے اور دل سے کب تک نہ ساز ہوتا
گر اپنی زندگی کا رشتہ دراز ہوتا
عاشق تو یک طرف ہے کہتا خدا دوعالم
بندہ نواز اگر تو بند ہ نواز ہوتا
گستاخ گر نہ کرتی تیری یہ مہربانی
کاہے کو اس قدر میں بے امتیاز ہوتا
گر درد کی تمنا ہوتی صفا طلب کو
دریا سے لب صدف کا کیوں بے نیاز ہوتا
کاہے کو مجھ پہ کھلتے یہ عقدِ بے حقیقت
گر دل نہ میر ا مائل سوئے مجاز ہوتا
سینہ میں آہِ سوزاں گر شعلہ زن ہوتی
مانند موم دل کے کیوں کر گداز ہوتا
دل کے اشعار کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان کے معاشی و اقتصادی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں تھے، جس کا اظہار بین بین ان کے شعروں میں ملتا ہے، انھوں نے میر وارث علی نالاں کی مدح کی جو ان کے گہرے اور بے تکلف دوست تھے۔ نالاں چونکہ بااثر اور صاحبِ ثروت تھے اور وہ اپنے دوست دل کی ہر ممکنہ مدد و دلداری بھی کیا کرتے تھے۔شاید یہی وجہ ہے دل نالاں کو میر صاحب کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ اور میر صاحب جو احسان ان پر کیا کرتے تھے وہ عام معنوں میں احسان نہ تھا بلکہ خوش خیالانِ بِہار کی یہ روایت تھی کہ علم و ادب کے فروغ اور اہلِ علم و فن کی دل جمعی اور سکونِ خاطر کے لئے وہ اس طرح کے حسنِ سلوک کو اپنے فرائض میں شمار کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے دل نالاں کو میر صاحب کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ اور میر صاحب جو احسان ان پر کیا کرتے تھے وہ عام معنوں میں احسان نہ تھا بلکہ خوش خیالانِ بِہار کی ےہ روایت بھی تھی کہ علم و ادب کے فروغ اور اہلِ علم و فن کی دل جمعی اور سکونِ خاطر کے لئے وہ اس طرح کے حسنِ سلوک کو اپنے فرائض میں شمار کرتے تھے۔
سعی دنیا کی جتنی کم ہو دل
اورتنا ہی دردِ سر نہیں ہوتا
دو عالم سے کیونکر نہ منہ پھیریے
دل اب زندگانی سے بےزار ہے
کلامِ دل سے ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو نمایاں ہوتے ہیں، ایک تو دنیاوی ہنگاموں سے بےزاری ملتی ہے۔ ترکِ علایق پسند کرتے ہیں اور عزلت نشینی اختیار کی ہوئی تھی۔آخری وقتوں میں وہ درویشی کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ انھوں نے لوگوں سے ملنا جلنا کم کردیا تھا، شاید عمر کی پختگی نےانھیں حقائق آشنا کردیا تھا اور ہوسکتا ہے کہ ان کا نام عابد بھی ان پر اثر انداز ہوا ہوگا اور وہ عابد و عارف ہوگئے۔ پر ایسا نہیں تھا کہ وہ اسبابِ جہاں سے غافل ہوگئے تھے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انداز میں استغناءپیدا ہوگیا تھا۔
ہاتھ اپنے آگیا جب نقد استغنائے دل
پھر کمی کس چیز کی سب کچھ مہیا ہے مجھے
عبارت ترک ہے جس سے وہ دل ہی کا تعلق ہے
گدا بھی ورنہ اسبابِ جہاں سے کیا نہیں رکھتے
صوفیانہ اثرات آدمی کو ذرا کم آمیز بنادیتا ہے، وہ گرچہ عُسرت سے دوچار تھے پر فکرِ سروساماں سے خالی نہیں تھے جو بقول دل کے اپنی زبانی۔
دل یہی بے سروسانی ہے سامان اپنا
کب تلک رہئے گا فکرِ سروسامانی کے بیچ
سامنے ہے اس دل افسردہ کے گلشن میں گل
طبع موزوں نے میری مجھ کو غزل خواں کردےا
تصنیف و تالیف اور شعر گوئی ان کا محبوب مشغلہ ٹھہراجس سے وہ افسردگیِ دل کو دور کرنے کی صورت پیدا کرتے تھے، ان کی غزل خوانی میں تصوّف کی آمیزش ہوگئی۔ صوفی اگر صحیح معنوں میں صوفی ہو تو وہ صاحبِ عمل اور صاحبِ پیام ہوتا ہے سو دل کا کلام بھی عمل کا پیغام دیتا ہے۔ وہ ہاس و ناامیدی سے بےزار، ہمّت و جرات، حوصلہ و امید سے سرشار یاں وہ مختلف انداز سے جذبہ عمل کو ابھارتے نظر آتے ہیں، لیکن تغزل کے دائرے میں رہ کر۔
دنیا میں خوشی کی دل کیا قدر سمجھتے ہم
خالق نے اگر غم کو پیدا نہ کیا ہوتا
ایک فرقت سے جی چراتے ہیں
ورنہ کیا ہم سے ہو نہیں سکتا
سایہءبام کہن دامِ اجل ہے اے دل
آسماں کے تلے مت سوئیو غافل ہوکر
کیا اسیری تھی کہ مدت ہوئی چھوٹے لیکن
بال و پر میں نہیں پرواز کا مقدور ہنوز
چھوڑنے دیتا نہ کارِ ناتمام
دل اگر ہوتا رفیقِ کوہکن
نہ مطلوبِ دنیا نہ مقصودِ دیں ہے
تری بے نیازی پہ دل آفریں ہے
جیتے رہے تو اپنی سیہ بختیوں کا ہم
لیویں گے انتقام کبھی روزگار سے
در تک تو بےوفا کے دل اک بار جائیے
اپنے نصیب کو بھی ذرا آزمائیے
دل کی وفات کا ذکر کسی تذکرے میں نہیں ملتا البتہ ان کی موت کا علم پہلے پہل تذکرہ عشقی سے ہوتا ہے اور اس کا زمانہءتصنیف سنہ 1205ھ سے سنہ1230ھ ہے اور ان کی وفات اسی زمانے میں ہوئی ہوگی۔
کیونکہ مصحفی نے اپنا تذکرہ سنہ 1209ھ میں مکمل کیا اور دل کو زندہ لکھا۔
واﷲ اعلم باالصواب!
از: احتشام انور
دل جس پہ علم و عشق کے عُقدے کھلے نہ ہوں
مطلب سمجھ سکے نہ میری داستان کا
جسونت رائے ناگر گجراتی برہمن کے بیٹے نے اسلام قبول کیا اور شیخ محمد عابد کے نام سے سرفراز ہوئے،یہی شیخ محمد عابد آگے چل کر دل عظیم آبادی کہلائے۔ معروف تذکرے طبقات الشعراءکے علاوہ تذکرہ شعرائے اردو ا ز میر حسن میں آپ کا ذکر موجود ہے۔تذکرہ ِشورش عظیم آبادی، تذکرہِ مسرت افزا اور گلزار ابراہیم خلیل بھی ان کے ذکر سے معمورنظر آتے ہیں۔دل عظیم آبادی کے معاصرین سخن وروں میں مشہور ترین شعراء سید جبار علی، رئیسِ چنار گڑھ بسمل متخلص جو مدت دراز تک عظیم آباد میں رہے۔خواجہ میر درددہلوی ،میر تقی میر، مرزامحمد رفیع سودا،شیخ محمد روشن جوشش(یہ سگے بھائی تھے اور انھوں نے بھی دل کے ساتھ ہی اسلام قبول کیا تھا)، میر وارث علی نالاں، سیدحبیب اللہ تحسین، اشرف علی خاں فغاں،محمد قلی خاں مشتاق۔ ان کے دیوان کی بازیابی و بازیافت میں سید وصی احمد بلگرامی اور مرتب محمد ظفیر الحسن کے ساتھ ہی اگر مہر نیمروز کے مدیر اعلیٰ ادیب شہیر جناب حسن مثنی ٰ ندوی کی ذاتی دل چسپیاں شامل نہ ہوتیں تو آج کسی کو کیاپتا چلتا کہ عظیم آباد میں ایک ایسا شاعر بھی گزرا ہے جو خواجہ میر درد،مرزا رفیع سودا اور میر تقی میر کا ہمعصر تھا اور جس نے ان کے سامنے نہ صرف اپنا کلام سنایا بلکہ داد بھی پائی!
داد چاہے تو دل اپنی، یہ غزل واں پڑھنا
کہ جہاں درد ہو، سودا ہو اور میر بھی ہو
ملئے گا جو میر سے کبھی دل
اپنی بھی غزل سنا ئےے گا
کوثر چاندپوری لکھتے ہیں کہ شاعری کی یہ بہت پرانی خصوصیت ہے کہ بعد میں آنے والے شعراءنے پہلے شاعروں کے افکاروخیالات سے فائدہ اٹھایا ہے اور ان کے چراغ ِ تخیل کی لَو سے اپنے شعور میں نئی شمع جلائی ہے ۔یہی طریقہ عرب کے شعراءو فصحا میں بھی رہا ہے کہ خیال مستعار لے کر اپنے شاعرانہ تصرفات نیز اسلوب کے سانچہ میں ڈھال کر اسے اپنے مخصوص اندازِ بیاں، لہجہ اور آہنگ میں پیش کردےا کرتے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاغالب نے بھی دل عظیم آبادی کا تتّبع کیا۔
جی میں ہے اب کسی کی سنئے نہ اپنی کہئے
یک کنجِ عافیت میں چپکے ہو بیٹھ رہئے(دل)
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو(غالب)
گوہر ِ مقصود تو کیا خاک ہاتھ آوے گا دل
عشق میں اس کے نظر آتا ہے سودا جان کا(دل)
فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہوجائے گا( غالب)
اتنا بھی غرورِ خوش نمانئیں
سنتے ہو، کسی کا کوئی خدا نہیں [دل]
زندگی اپنی جو اس طور سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد رکھیں گے کہ خدارکھتے تھے(غالب)
دل کا جو کلام ہمیں دستیاب ہوسکا وہ صرف ان کا ایک قلمی نسخہ ہے جو نواب مہدی علی خاں نے سنہ 1315ھ میں خریدا تھاجس کے صفحات کی تعداد 160 اور اس میں موجود کلام میں غزلیں 323 ( صفحہ1سے 156،تعدادِ ابےات 6016)، قطعات6 اور رباعیات کی تعداد 16ہیں جبکہ اس دیوان کی کتابت تقریبا دو سو سال قبل ہوئی۔ گو دل نے تعلیم و تربیت کہاں سے پائی، نشونما کہاں ہوئی، فنِ سخن میں کس کے شاگرد تھے اس کی کچھ خبر نہیں، البتہ تذکرہ نگاروں نے ان کی علمی قابلیت کی نہ صرف ستائش کی بلکہ سب ہی ان کی صلاحیت کے معترف تھے، مثلا شورش عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ،در علم عربی و فارسی علی الخصوص در ہیئت و حساب صاحب استعداد ۔ دل شعر گوئی کے ساتھ ساتھ عروض و قافیہ کے فن سے بھی واقفیت رکھتے تھے اور بقول عشقی کے قواعدِ عروض پر ایک کتاب بھی “عروض الہندی“کے نام سے لکھی۔ الغرض پچاسوں ایسے اشعار ہم یہاں نقل کرسکتے ہیں تاہم دل کی ایک غزل دیکھیں اور انھیں یاد کریں۔
زلفوں سے اور دل سے کب تک نہ ساز ہوتا
گر اپنی زندگی کا رشتہ دراز ہوتا
عاشق تو یک طرف ہے کہتا خدا دوعالم
بندہ نواز اگر تو بند ہ نواز ہوتا
گستاخ گر نہ کرتی تیری یہ مہربانی
کاہے کو اس قدر میں بے امتیاز ہوتا
گر درد کی تمنا ہوتی صفا طلب کو
دریا سے لب صدف کا کیوں بے نیاز ہوتا
کاہے کو مجھ پہ کھلتے یہ عقدِ بے حقیقت
گر دل نہ میر ا مائل سوئے مجاز ہوتا
سینہ میں آہِ سوزاں گر شعلہ زن ہوتی
مانند موم دل کے کیوں کر گداز ہوتا
دل کے اشعار کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان کے معاشی و اقتصادی حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں تھے، جس کا اظہار بین بین ان کے شعروں میں ملتا ہے، انھوں نے میر وارث علی نالاں کی مدح کی جو ان کے گہرے اور بے تکلف دوست تھے۔ نالاں چونکہ بااثر اور صاحبِ ثروت تھے اور وہ اپنے دوست دل کی ہر ممکنہ مدد و دلداری بھی کیا کرتے تھے۔شاید یہی وجہ ہے دل نالاں کو میر صاحب کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ اور میر صاحب جو احسان ان پر کیا کرتے تھے وہ عام معنوں میں احسان نہ تھا بلکہ خوش خیالانِ بِہار کی یہ روایت تھی کہ علم و ادب کے فروغ اور اہلِ علم و فن کی دل جمعی اور سکونِ خاطر کے لئے وہ اس طرح کے حسنِ سلوک کو اپنے فرائض میں شمار کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے دل نالاں کو میر صاحب کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ اور میر صاحب جو احسان ان پر کیا کرتے تھے وہ عام معنوں میں احسان نہ تھا بلکہ خوش خیالانِ بِہار کی ےہ روایت بھی تھی کہ علم و ادب کے فروغ اور اہلِ علم و فن کی دل جمعی اور سکونِ خاطر کے لئے وہ اس طرح کے حسنِ سلوک کو اپنے فرائض میں شمار کرتے تھے۔
سعی دنیا کی جتنی کم ہو دل
اورتنا ہی دردِ سر نہیں ہوتا
دو عالم سے کیونکر نہ منہ پھیریے
دل اب زندگانی سے بےزار ہے
کلامِ دل سے ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو نمایاں ہوتے ہیں، ایک تو دنیاوی ہنگاموں سے بےزاری ملتی ہے۔ ترکِ علایق پسند کرتے ہیں اور عزلت نشینی اختیار کی ہوئی تھی۔آخری وقتوں میں وہ درویشی کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ انھوں نے لوگوں سے ملنا جلنا کم کردیا تھا، شاید عمر کی پختگی نےانھیں حقائق آشنا کردیا تھا اور ہوسکتا ہے کہ ان کا نام عابد بھی ان پر اثر انداز ہوا ہوگا اور وہ عابد و عارف ہوگئے۔ پر ایسا نہیں تھا کہ وہ اسبابِ جہاں سے غافل ہوگئے تھے، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انداز میں استغناءپیدا ہوگیا تھا۔
ہاتھ اپنے آگیا جب نقد استغنائے دل
پھر کمی کس چیز کی سب کچھ مہیا ہے مجھے
عبارت ترک ہے جس سے وہ دل ہی کا تعلق ہے
گدا بھی ورنہ اسبابِ جہاں سے کیا نہیں رکھتے
صوفیانہ اثرات آدمی کو ذرا کم آمیز بنادیتا ہے، وہ گرچہ عُسرت سے دوچار تھے پر فکرِ سروساماں سے خالی نہیں تھے جو بقول دل کے اپنی زبانی۔
دل یہی بے سروسانی ہے سامان اپنا
کب تلک رہئے گا فکرِ سروسامانی کے بیچ
سامنے ہے اس دل افسردہ کے گلشن میں گل
طبع موزوں نے میری مجھ کو غزل خواں کردےا
تصنیف و تالیف اور شعر گوئی ان کا محبوب مشغلہ ٹھہراجس سے وہ افسردگیِ دل کو دور کرنے کی صورت پیدا کرتے تھے، ان کی غزل خوانی میں تصوّف کی آمیزش ہوگئی۔ صوفی اگر صحیح معنوں میں صوفی ہو تو وہ صاحبِ عمل اور صاحبِ پیام ہوتا ہے سو دل کا کلام بھی عمل کا پیغام دیتا ہے۔ وہ ہاس و ناامیدی سے بےزار، ہمّت و جرات، حوصلہ و امید سے سرشار یاں وہ مختلف انداز سے جذبہ عمل کو ابھارتے نظر آتے ہیں، لیکن تغزل کے دائرے میں رہ کر۔
دنیا میں خوشی کی دل کیا قدر سمجھتے ہم
خالق نے اگر غم کو پیدا نہ کیا ہوتا
ایک فرقت سے جی چراتے ہیں
ورنہ کیا ہم سے ہو نہیں سکتا
سایہءبام کہن دامِ اجل ہے اے دل
آسماں کے تلے مت سوئیو غافل ہوکر
کیا اسیری تھی کہ مدت ہوئی چھوٹے لیکن
بال و پر میں نہیں پرواز کا مقدور ہنوز
چھوڑنے دیتا نہ کارِ ناتمام
دل اگر ہوتا رفیقِ کوہکن
نہ مطلوبِ دنیا نہ مقصودِ دیں ہے
تری بے نیازی پہ دل آفریں ہے
جیتے رہے تو اپنی سیہ بختیوں کا ہم
لیویں گے انتقام کبھی روزگار سے
در تک تو بےوفا کے دل اک بار جائیے
اپنے نصیب کو بھی ذرا آزمائیے
دل کی وفات کا ذکر کسی تذکرے میں نہیں ملتا البتہ ان کی موت کا علم پہلے پہل تذکرہ عشقی سے ہوتا ہے اور اس کا زمانہءتصنیف سنہ 1205ھ سے سنہ1230ھ ہے اور ان کی وفات اسی زمانے میں ہوئی ہوگی۔
کیونکہ مصحفی نے اپنا تذکرہ سنہ 1209ھ میں مکمل کیا اور دل کو زندہ لکھا۔
واﷲ اعلم باالصواب!