دل فقط عرضِ مدعا جانے

La Alma

لائبریرین

دل فقط عرضِ مدعا جانے
شعر کیا ہے مری بلا جانے

مجھ پہ عقدہ نہ کھل سکا اپنا
کس طرح کوئی دوسرا جانے

تنگئِ دامنِ جہاں کو ہم
وسعتِ شوق کی دوا جانے

محض وہ ساز تھے زمانوں کے
ہم جسے سوزِ ارتقا جانے

لذتِ فکر کیا بھلی شے ہے
جس نے چکھا وہ ہی مزا جانے

جاں گئی تھی فراق میں اس کے
سب اجل کا کیا دھرا جانے

حیف! یہ مٹی بھی پرائی ہے
کس کی ہوں قبر میں خدا جانے

 

شکیب

محفلین
دل فقط عرضِ مدعا جانے
شعر کیا ہے مری بلا جانے
درست۔ اچھا مطلع ہے۔
مجھ پہ عقدہ نہ کھل سکا اپنا
کس طرح کوئی دوسرا جانے
یہاں مصرع اولی میں ”مجھی پہ اپنا عقدہ نہیں کھل سکا“ لانے کی کوشش کریں، شعر درست معنی پہن لے گا۔ یعنی زور لفظ ”مجھی یا مجھ ہی“ پر رہے۔
تنگئِ دامنِ جہاں کو ہم
وسعتِ شوق کی دوا جانے
لفظ ”ہم“ کے سبب اخیر میں ”جانیں“ کا محل ہے۔ دوم یہ کہ خیال بھی درست نہیں۔۔۔۔ وسعتِ شوق کوئی مرض تو ہے نہیں کہ اس کی دوا ہو۔
یہ ترکیب کے آپ کیا معنی لے رہے ہیں؟ نیز اس کا کہیں استعمال دیکھا ہے آپ نے؟
لذتِ فکر کیا بھلی شے ہے
جس نے چکھا وہ ہی مزا جانے
یہ سراسر بھرتی محسوس ہوتی ہے۔
جاں گئی تھی فراق میں اس کے
سب اجل کا کیا دھرا جانے
یہ عجزِ بیان کی بہترین مثال ہے۔
حیف! یہ مٹی بھی پرائی ہے
کس کی ہوں قبر میں خدا جانے
مصرع ثانی میں تعقید در آئی ہے۔ الفاظ کے ہیر پھیر کو سیدھا کیجیے۔ خیال اچھا ثابت ہو سکتا ہے اگر کما حقہ باندھا جائے۔ اس طرح کہ قاری چونک پڑے۔
 

فرقان احمد

محفلین
دل فقط عرضِ مدعا جانے
شعر کیا ہے مری بلا جانے

لذتِ فکر کیا بھلی شے ہے
جس نے چکھا وہ ہی مزا جانے

حیف! یہ مٹی بھی پرائی ہے
کس کی ہوں قبر میں خدا جانے
بہت خوب! سلامت رہیں!
 

شکیب

محفلین
معذرت کہ میں آپ کو مذکر سمجھ رہا تھا۔ معذرت چاہتا ہوں۔ غالبا یہ ”المی“ ہے۔ لیکن ”لا“ ہے تو المی تو ”نہیں“ ہے۔ :)
خیر معذرت بارِ ”تگر“
 

عباد اللہ

محفلین
ابھی ابھی معلوم ہوا کہ فکر مذکر بھی ہے اور مونث بھی لذت البتہ مونث ہی ہے میرے خیال میں تو مونث کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے
 

La Alma

لائبریرین
درست۔ اچھا مطلع ہے۔

یہاں مصرع اولی میں ”مجھی پہ اپنا عقدہ نہیں کھل سکا“ لانے کی کوشش کریں، شعر درست معنی پہن لے گا۔ یعنی زور لفظ ”مجھی یا مجھ ہی“ پر رہے۔

لفظ ”ہم“ کے سبب اخیر میں ”جانیں“ کا محل ہے۔ دوم یہ کہ خیال بھی درست نہیں۔۔۔۔ وسعتِ شوق کوئی مرض تو ہے نہیں کہ اس کی دوا ہو۔

یہ ترکیب کے آپ کیا معنی لے رہے ہیں؟ نیز اس کا کہیں استعمال دیکھا ہے آپ نے؟

یہ سراسر بھرتی محسوس ہوتی ہے۔

یہ عجزِ بیان کی بہترین مثال ہے۔

مصرع ثانی میں تعقید در آئی ہے۔ الفاظ کے ہیر پھیر کو سیدھا کیجیے۔ خیال اچھا ثابت ہو سکتا ہے اگر کما حقہ باندھا جائے۔ اس طرح کہ قاری چونک پڑے۔
میں نے تو ان اشعار پر اعتراضات اٹھنے سے پہلے ہی حفظ ما تقدم کے طور پر کہہ دیا تھا
دل فقط عرضِ مدعا جانے
شعر کیا ہے مری بلا جانے ☺
لیکن آپ کی رائے محترم ہے دوبارہ غور کروں گی
.
"تنگئ دامنِ جہاں کو ہم
وسعتِ شوق کی دوا جانے"
وسعتِ شوق ایک عارضہ ہی ہے جنہیں لاحق ہے وہی جانتے ہیں .
مجھے لگتا ہے یہاں " ہم " کے ساتھ " جانے " بھی درست ہے . 'جانے'' بمعنی ''سمجھے " ہے
نثر دیکھئے .
ہم تنگیِ دامنِ جہاں کو وسعتِ شوق کی دوا سمجھے (جانے )

" جاں گئی تھی فراق میں اس کے
سب اجل کا کیا دھرا جانے"
یہاں عجزِ بیاں والی بات آپ کی درست معلوم ہو رہی ہے .شکریہ
 

La Alma

لائبریرین
دوسرا مصرع دیکھئے چکھا نہیں چکھی اس پر غور کیجئے مزید بہتر ہو سکتا ہے
اس چکھا چکھی کے بارے میں تا حال کشمکش میں ہوں .
'لذتِ فکر 'اور 'شے 'کی مناسبت سے چکھی ہونا چاہیے جبکہ 'مزا '' مذکر ہے اس لحاظ سے چکھا درست ہے ..کچھ سمجھ نہیں آ رہا .
 
Top