درست۔ اچھا مطلع ہے۔
یہاں مصرع اولی میں ”مجھی پہ اپنا عقدہ نہیں کھل سکا“ لانے کی کوشش کریں، شعر درست معنی پہن لے گا۔ یعنی زور لفظ ”مجھی یا مجھ ہی“ پر رہے۔
لفظ ”ہم“ کے سبب اخیر میں ”جانیں“ کا محل ہے۔ دوم یہ کہ خیال بھی درست نہیں۔۔۔۔ وسعتِ شوق کوئی مرض تو ہے نہیں کہ اس کی دوا ہو۔
یہ ترکیب کے آپ کیا معنی لے رہے ہیں؟ نیز اس کا کہیں استعمال دیکھا ہے آپ نے؟
یہ سراسر بھرتی محسوس ہوتی ہے۔
یہ عجزِ بیان کی بہترین مثال ہے۔
مصرع ثانی میں تعقید در آئی ہے۔ الفاظ کے ہیر پھیر کو سیدھا کیجیے۔ خیال اچھا ثابت ہو سکتا ہے اگر کما حقہ باندھا جائے۔ اس طرح کہ قاری چونک پڑے۔
میں نے تو ان اشعار پر اعتراضات اٹھنے سے پہلے ہی حفظ ما تقدم کے طور پر کہہ دیا تھا
دل فقط عرضِ مدعا جانے
شعر کیا ہے مری بلا جانے ☺
لیکن آپ کی رائے محترم ہے دوبارہ غور کروں گی
.
"تنگئ دامنِ جہاں کو ہم
وسعتِ شوق کی دوا جانے"
وسعتِ شوق ایک عارضہ ہی ہے جنہیں لاحق ہے وہی جانتے ہیں .
مجھے لگتا ہے یہاں " ہم " کے ساتھ " جانے " بھی درست ہے . 'جانے'' بمعنی ''سمجھے " ہے
نثر دیکھئے .
ہم تنگیِ دامنِ جہاں کو وسعتِ شوق کی دوا سمجھے (جانے )
" جاں گئی تھی فراق میں اس کے
سب اجل کا کیا دھرا جانے"
یہاں عجزِ بیاں والی بات آپ کی درست معلوم ہو رہی ہے .شکریہ