کاشفی
محفلین
غزل
(بہزاد لکھنوی)
دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں
اب تیرا کفر ہی مرا ایماں ہے کیا کروں
باہوش ہوں مگر مرا دامن ہے چاک چاک
عالم یہ دیکھ دیکھ کے حیراں ہے کیا کروں
ہر طرح کا سکون ہے ہر طرح کا ہے کیف
پھر بھی یہ میرا قلب پریشاں ہے کیا کروں
کہتا نہیں ہوں اور زمانہ ہے باخبر
چہرے سے دل کا حال نمایاں ہے کیا کروں
دامن کروں نہ چاک یہ ممکن تو ہے مگر
مضطر ہر ایک تارِگریباں ہے کیا کروں
سادہ سا اک ورق ہوں کتابِ حیات کا
حسرت ہے اب نہ اب کوئی ارماں ہے کیا کروں
ہر سمت پارہا ہوں وہی رنگِ دلفریب
ہاتھوں میں کفر کے مرا ایماں ہے کیا کروں
داغوں کا قلبِ زار کے ممکن تو ہے علاج
ان کے ہی دم سے دل میں چراغاں ہے کیا کروں
اک بیوفا کے واسطے سب کچھ لُٹا دیا
بہزاد اب نہ دیں ہے نہ ایماں ہے کیا کروں
(بہزاد لکھنوی)
دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں
اب تیرا کفر ہی مرا ایماں ہے کیا کروں
باہوش ہوں مگر مرا دامن ہے چاک چاک
عالم یہ دیکھ دیکھ کے حیراں ہے کیا کروں
ہر طرح کا سکون ہے ہر طرح کا ہے کیف
پھر بھی یہ میرا قلب پریشاں ہے کیا کروں
کہتا نہیں ہوں اور زمانہ ہے باخبر
چہرے سے دل کا حال نمایاں ہے کیا کروں
دامن کروں نہ چاک یہ ممکن تو ہے مگر
مضطر ہر ایک تارِگریباں ہے کیا کروں
سادہ سا اک ورق ہوں کتابِ حیات کا
حسرت ہے اب نہ اب کوئی ارماں ہے کیا کروں
ہر سمت پارہا ہوں وہی رنگِ دلفریب
ہاتھوں میں کفر کے مرا ایماں ہے کیا کروں
داغوں کا قلبِ زار کے ممکن تو ہے علاج
ان کے ہی دم سے دل میں چراغاں ہے کیا کروں
اک بیوفا کے واسطے سب کچھ لُٹا دیا
بہزاد اب نہ دیں ہے نہ ایماں ہے کیا کروں