دل میں خیالِ یار

Imran Niazi

محفلین
اسلام و علیکم اساتزہِ محترم
نوک پلک سیدھی کروانے اور آپ کی قیمتی اصلاح کے لیئے حاضر ہے میری نئی غزل،،،


دل میں‌خیالِ یار ہے اور ہم ہیں آج کل
وہ بھی جفا شعار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

آنکھیں‌بچھی ہوئی ہیں‌رستے پہ بن کہ پھول
(آنکھیں بچھا رہے ہیں راہ پر بنا کہ پھول(
بس اُس کا انتظار ہے اور ہم ہیں آج کل

ہر سمت اُس کے جلوے ہر اوور اُس کا سایہ
اک حسنِ بے شمار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

دل کو تمہاری یاد سے فرصت نہیں‌ذرا
بس یہ ہی کاروبار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

سوچیں‌مہک رہی ہیں مثلِ گلاب ساری
خوشبو کا اِک حصار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

دل اب بساطِ عشق کے اُس مرحلے پہ ہے
نہ جیت ہے نہ ہار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

اکتا گئی ہیں‌نظریں دنیا کے منظروں‌سے
تنہائیوں کی غار ہے اور ہم ہیں آج کل

اب چھوڑ دی ہے ہم نے حقیقت کی آرزو
خوابوں کا اِک دیار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

۔اِک شام ہی تو زیست کا حاصل ہے ہم نشیں
وہی ایک شامِ ادھار ہے اور ہم ہیں‌ آج کل

عمران اب کے ہوش میں‌آئیں‌محال ہے
آس آنکھ کا خمار ہے اور ہم ہیں آج کل


 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب عمران لاجواب،
کچھ ہجے کی غلطیاں ہیں شاید، جیسے کہ کی جگہ کے آنا چاہئیے شاید اور اوور کی جگہ اوڑ شاید اور اوڑ کی جگہ طرف بھی آ سکتا ہے،،،، باقی اساتذہ کرام آتے ہی ہونگے۔
 

الف عین

لائبریرین
حسب معمول دوسرے مصرعے سارے ہی بحر میں ہیں (ایک دو چھوڑ کر) لیکن اولیٰ خارج ہیں۔ ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے۔ انشاء اللہ کل اس پر بھی اصلاح کر دوں گا۔ اس وقت راجا کی غزل نبھی کھلی ہوئی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
عمدہ کوشش ہے۔ مبارک باد! نہ تو میں عالم ہوں اور نہ شاعر لیکن چند ایک گزارشات تھیں جو آپ کے حضور گزارنا چاہ رہا تھا۔

اوزان کے متعلق جیسا کہ اعجاز صاحب فرما چکے ہیں اکثر مصرع ہائے اولیٰ خارج از بحر ہیں۔ میں ذیل میں درج کیے دے رہا ہوں:

"آنکھیں‌بچھی ہوئی ہیں رستے پہ بن کہ پھول"
(آنکھیں بچھا رہے ہیں راہ پر بنا کہ پھول)
دونوں میں وزن گر رہا ہے۔ اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ "آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں رہ پر بنا کے پھول"

ہر سمت اُس کے جلوے ہر اوور اُس کا سایہ
"سائے" کا وزن "عکس" سے گھٹایا جا سکتا ہے اور جلوے کے بعد ایک "ہیں" کا اضافہ کر دیا جائے لیکن اس سے بھی تنافر کا شائبہ ہوتا ہے جب کہ "اوور" کی درست املا "اور" ہو جائے گی۔ یعنی "ہر سمت اُس کے جلوے ہیں، ہر اور اُس کا عکس"

بس یہ ہی کاروبار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
"یہ ہی" جب اکٹھا استعمال ہوتا ہے تو اس کی املا اور تلفظ "یہی" ہو جاتا ہے۔ یوں تو "بس یہ ہی" کو "یہ ایک" یا "بس اک یہ" کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر دوبارہ غور فرما لیں کہ اگر اس سے بہتر کچھ لا سکیں۔

سوچیں‌مہک رہی ہیں مثلِ گلاب ساری
اس کی بحر تبدیل ہو کر "مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن" ہو گئی ہے۔ یہ مصرع یوں بھی ہو سکتا ہے کہ "سوچیں مہک سی اٹھی ہیں مثلِ گلاب سب"

اکتا گئی ہیں‌نظریں دنیا کے منظروں‌سے
یہاں بھی بحر تبدیل ہو کر بالائی مصرع کے مطابق ہو گئی ہے۔ فی الحال سوائے اس کے کوئی متبادل ذہن میں نہیں آ رہا کہ "اکتا گئی ہے منظرِ دنیا سے اب نظر"

وہی ایک شامِ ادھار ہے اور ہم ہیں‌ آج کل
مصرع کے آغاز میں "وہی ایک" کو تو "وہ ایک" سے تبدیل کر کے وزن میں کیا جا سکتا ہے لیکن بحر اور قافیہ کی پابندی کرتے ہوئے "شامِ ادھار" کا مرکب اس جگہ استعمال ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بجائے کچھ اور سوچیں۔

مقطع بہت ہی خوبصورت اور ہر دو مصرعوں میں وزن تو بالکل درست ہے لیکن میری ادنیٰ رائے میں اگر مصرع اولیٰ میں "ہوش میں آئیں محال ہے" کی جگہ "ہوش میں آنا محال ہے" ہوتا تو شاید خوبصورت تر ہو جاتا لیکن وزن بہرحال درست ہے۔
 

Imran Niazi

محفلین
عمدہ کوشش ہے۔ مبارک باد! نہ تو میں عالم ہوں اور نہ شاعر لیکن چند ایک گزارشات تھیں جو آپ کے حضور گزارنا چاہ رہا تھا۔

اوزان کے متعلق جیسا کہ اعجاز صاحب فرما چکے ہیں اکثر مصرع ہائے اولیٰ خارج از بحر ہیں۔ میں ذیل میں درج کیے دے رہا ہوں:

"آنکھیں‌بچھی ہوئی ہیں رستے پہ بن کہ پھول"
(آنکھیں بچھا رہے ہیں راہ پر بنا کہ پھول)
دونوں میں وزن گر رہا ہے۔ اسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ "آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں رہ پر بنا کے پھول"

ہر سمت اُس کے جلوے ہر اوور اُس کا سایہ
"سائے" کا وزن "عکس" سے گھٹایا جا سکتا ہے اور جلوے کے بعد ایک "ہیں" کا اضافہ کر دیا جائے لیکن اس سے بھی تنافر کا شائبہ ہوتا ہے جب کہ "اوور" کی درست املا "اور" ہو جائے گی۔ یعنی "ہر سمت اُس کے جلوے ہیں، ہر اور اُس کا عکس"

بس یہ ہی کاروبار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
"یہ ہی" جب اکٹھا استعمال ہوتا ہے تو اس کی املا اور تلفظ "یہی" ہو جاتا ہے۔ یوں تو "بس یہ ہی" کو "یہ ایک" یا "بس اک یہ" کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر دوبارہ غور فرما لیں کہ اگر اس سے بہتر کچھ لا سکیں۔

سوچیں‌مہک رہی ہیں مثلِ گلاب ساری
اس کی بحر تبدیل ہو کر "مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن" ہو گئی ہے۔ یہ مصرع یوں بھی ہو سکتا ہے کہ "سوچیں مہک سی اٹھی ہیں مثلِ گلاب سب"

اکتا گئی ہیں‌نظریں دنیا کے منظروں‌سے
یہاں بھی بحر تبدیل ہو کر بالائی مصرع کے مطابق ہو گئی ہے۔ فی الحال سوائے اس کے کوئی متبادل ذہن میں نہیں آ رہا کہ "اکتا گئی ہے منظرِ دنیا سے اب نظر"

وہی ایک شامِ ادھار ہے اور ہم ہیں‌ آج کل
مصرع کے آغاز میں "وہی ایک" کو تو "وہ ایک" سے تبدیل کر کے وزن میں کیا جا سکتا ہے لیکن بحر اور قافیہ کی پابندی کرتے ہوئے "شامِ ادھار" کا مرکب اس جگہ استعمال ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بجائے کچھ اور سوچیں۔

مقطع بہت ہی خوبصورت اور ہر دو مصرعوں میں وزن تو بالکل درست ہے لیکن میری ادنیٰ رائے میں اگر مصرع اولیٰ میں "ہوش میں آئیں محال ہے" کی جگہ "ہوش میں آنا محال ہے" ہوتا تو شاید خوبصورت تر ہو جاتا لیکن وزن بہرحال درست ہے۔

بہت نوازش فاتح ساحب
بہت شکریہ آپ کی راہ نمائی کا،
ہر سمت اُس کے جلوے ہیں ہر موڑ اُس کا عکس یا ہر گام اُس کا عکس
یہ کیسا رہیگا سر ؟
اور، وہ شام بھی ادھار ہے کیا یہ یہاں‌استعمال کیا جا سکتا ہے ؟؟؟؟
 

فاتح

لائبریرین
بہت نوازش فاتح ساحب
بہت شکریہ آپ کی راہ نمائی کا،
ہر سمت اُس کے جلوے ہیں ہر موڑ اُس کا عکس یا ہر گام اُس کا عکس
یہ کیسا رہیگا سر ؟
اور، وہ شام بھی ادھار ہے کیا یہ یہاں‌استعمال کیا جا سکتا ہے ؟؟؟؟

محبتیں ہیں آپ کی۔ میں نے تو حتی المقدور آپ ہی کے الفاظ کو برقرار رکھتے ہوئے وزن درست کرنے کی کوشش کی تھی لیکن گام بہر حال زیادہ خوبصورت لگ رہا ہے۔گو کہ "ہیں ہر" میں ہ کی دو آوازیں یک جا ہونے سے تنافر اپنی جگہ موجود ہے۔

"وہ شام بھی ادھار ہے" ایک اچھی اصلاح ہے جو آپ سابقہ الفاظ میں کم سے کم تبدیلی کے ساتھ کر لی۔ شام کی م اور بھی کا ب دونوں کی ادائیگی میں ہونٹ ملتے ہیں اور یہاں بھی عیب وہی ہے جو سابقہ مصرع میں میری تبدیلی کے باعث در آیا تھا یعنی [post=240596]تنافر[/post] ۔
 

Imran Niazi

محفلین
محبتیں ہیں آپ کی۔ میں نے تو حتی المقدور آپ ہی کے الفاظ کو برقرار رکھتے ہوئے وزن درست کرنے کی کوشش کی تھی لیکن گام بہر حال زیادہ خوبصورت لگ رہا ہے۔گو کہ "ہیں ہر" میں ہ کی دو آوازیں یک جا ہونے سے تنافر اپنی جگہ موجود ہے۔

"وہ شام بھی ادھار ہے" ایک اچھی اصلاح ہے جو آپ سابقہ الفاظ میں کم سے کم تبدیلی کے ساتھ کر لی۔ شام کی م اور بھی کا ب دونوں کی ادائیگی میں ہونٹ ملتے ہیں اور یہاں بھی عیب وہی ہے جو سابقہ مصرع میں میری تبدیلی کے باعث در آیا تھا یعنی [post=240596]تنافر[/post] ۔

نہیں جناب خیر ایسی بھی بات نہیں،
آپ نے میری اصلاح تو کی چاہے میرے الفاظ سے ہی کی،
وہ شام بھی مجھے بھی نا معقول لگ رہا تھا،
لیکن میں‌نے پھر سوچا کہ شاےد یہ کمی کو پورا کر ہی دے تو اس لیئے لکھ دیا
تو ان دونون فقروں کا کیا کِیا جائے ؟
 

فاتح

لائبریرین
ہممم میرے خیال میں جب تک متبادل مصرعے نہیں ہو پاتے تب تک تنافر کو برداشت کر لیا جائے:)
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ فاتح۔ تمہارے آج کے پیغاموں سے “پہلے ہی آف لائن اصلاح کر چکا تھا، کچھ تمھارے مجوزہ مصرعوں میں بھی تبدیلی کی ہے۔ بہر حال، جو بھی کیا ہے، وہ پیش بلکہ ’پیسٹ ‘ ہے:

دل میں‌خیالِ یار ہے اور ہم ہیں آج کل
وہ بھی جفا شعار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
درست

آنکھیں‌بچھی ہوئی ہیں‌رستے پہ بن کہ پھول
(آنکھیں بچھا رہے ہیں راہ پر بنا کہ پھول(
بس اُس کا انتظار ہے اور ہم ہیں آج کل

آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں رہ پر بنا کے پھول
فاتح کی اصلاح درست ہے، لیکن اس میں بھی ’رہ پر بنا کے پھول‘ کھٹک رہا ہے، روانی نہیں اس میں۔

ہر سمت اُس کے جلوے ہر اوور اُس کا سایہ
اک حسنِ بے شمار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
ہر سمت اُس کے جلوے ہیں، ہر اور اُس کا عکس
فاتح کی اصلاح درست ہے، لیکن اس میں بھی ہندی ’اور‘ کا استعمال ’جلوے‘ اور "عکس‘ کے ساتھ اچھا نہیں لگ رہا۔ ایک صورت یوں ہو سکتی ہے:
ہر سمت اُس کے جلوے ہیں، ہر اور اُس کا روپ

دل کو تمہاری یاد سے فرصت نہیں‌ذرا
بس یہ ہی کاروبار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
دوسررے مصرع کو ہی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ’بس اک یہ‘ سے بھی مطمئن نہیں ہوں۔ ’اک یہ بھی‘ کیسا رہے گا، کچھ معنی تبدیل ہو جاتے ہیں، لیکن ’ؔبس’‘ کی جگہ ’ؔاک‘ بہتر ہے۔

سوچیں‌مہک رہی ہیں مثلِ گلاب ساری
خوشبو کا اِک حصار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

سوچیں مہک رہی ہیں گلابوں کی طرح آج
بہتر ہوگا۔

دل اب بساطِ عشق کے اُس مرحلے پہ ہے
نہ جیت ہے نہ ہار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

دوسرے مصرع میں ’ نہ‘ کا استعمال میرے حساب سے درست نہیں۔ اس کو ’نا‘ ہی لکھ دیں۔

اکتا گئی ہیں‌نظریں دنیا کے منظروں‌سے
تنہائیوں کی غار ہے اور ہم ہیں آج کل
فاتح کی اصلاح
اکتا گئی ہے منظرِ دنیا سے اب نظر
میں ’منظرِ دنیا‘ بھی پسند نہیں آیا۔(واحد ہعونے کی وجہ سے) اس کی جگہ
دنیا کے منظروں سے جو اکتا گئی نظر
کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ’غار‘ کو مؤنث باندھا گیا ہے۔ یہ غلط ہے۔
تنہائیوں کا غار ہے اور۔۔۔۔

اب چھوڑ دی ہے ہم نے حقیقت کی آرزو
خوابوں کا اِک دیار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

مکمل درست

اِک شام ہی تو زیست کا حاصل ہے ہم نشیں
وہی ایک شامِ ادھار ہے اور ہم ہیں‌ آج کل
اس شعر کا مطلب ہی سمجھنے سے قاصر ہوں، اس لئے کچھ مشورہ نہیں دے سکتا۔ اگر قافیہ کی مجبوری نہ بھی ہو تو "شامِ قرض" سے مطلب۔۔ اس کو واضح کریں تو کچھ اصلاح کی سوچی جائے

عمران اب کے ہوش میں‌آئیں‌محال ہے
آس آنکھ کا خمار ہے اور ہم ہیں آج کل؂؂؂
فاتح کے مشورے کے مطابق "ہوش میں آنا ‘ کر دیں۔
آس آنکھ کا؟ یہ "اُس آنکھ کا تو نہیں ‘۔ اگر املا کی غلطی ہے تو درست کر لیں۔ شعر میں اور کوئی نقص نہیں۔
 

Imran Niazi

محفلین
شکریہ فاتح۔ تمہارے آج کے پیغاموں سے “پہلے ہی آف لائن اصلاح کر چکا تھا، کچھ تمھارے مجوزہ مصرعوں میں بھی تبدیلی کی ہے۔ بہر حال، جو بھی کیا ہے، وہ پیش بلکہ ’ہیسٹ ‘ ہے:

دل میں‌خیالِ یار ہے اور ہم ہیں آج کل
وہ بھی جفا شعار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
درست

آنکھیں‌بچھی ہوئی ہیں‌رستے پہ بن کہ پھول
(آنکھیں بچھا رہے ہیں راہ پر بنا کہ پھول(
بس اُس کا انتظار ہے اور ہم ہیں آج کل

آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں رہ پر بنا کے پھول
فاتح کی اصلاح درست ہے، لیکن اس میں بھی ’رہ پر بنا کے پھول‘ کھٹک رہا ہے، روانی نہیں اس میں۔

ہر سمت اُس کے جلوے ہر اوور اُس کا سایہ
اک حسنِ بے شمار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
ہر سمت اُس کے جلوے ہیں، ہر اور اُس کا عکس
فاتح کی اصلاح درست ہے، لیکن اس میں بھی ہندی ’اور‘ کا استعمال ’جلوے‘ اور "عکس‘ کے ساتھ اچھا نہیں لگ رہا۔ ایک صورت یوں ہو سکتی ہے:
ہر سمت اُس کے جلوے ہیں، ہر اور اُس کا روپ

دل کو تمہاری یاد سے فرصت نہیں‌ذرا
بس یہ ہی کاروبار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
دوسررے مصرع کو ہی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ’بس اک یہ‘ سے بھی مطمئن نہیں ہوں۔ ’اک یہ بھی‘ کیسا رہے گا، کچھ معنی تبدیل ہو جاتے ہیں، لیکن ’ؔبس’‘ کی جگہ ’ؔاک‘ بہتر ہے۔

سوچیں‌مہک رہی ہیں مثلِ گلاب ساری
خوشبو کا اِک حصار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

سوچیں مہک رہی ہیں گلابوں کی طرح آج
بہتر ہوگا۔

دل اب بساطِ عشق کے اُس مرحلے پہ ہے
نہ جیت ہے نہ ہار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

دوسرے مصرع میں ’ نہ‘ کا استعمال میرے حساب سے درست نہیں۔ اس کو ’نا‘ ہی لکھ دیں۔

اکتا گئی ہیں‌نظریں دنیا کے منظروں‌سے
تنہائیوں کی غار ہے اور ہم ہیں آج کل
فاتح کی اصلاح
اکتا گئی ہے منظرِ دنیا سے اب نظر
میں ’منظرِ دنیا‘ بھی پسند نہیں آیا۔(واحد ہعونے کی وجہ سے) اس کی جگہ
دنیا کے منظروں سے جو اکتا گئی نظر
کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ’غار‘ کو مؤنث باندھا گیا ہے۔ یہ غلط ہے۔
تنہائیوں کا غار ہے اور۔۔۔۔

اب چھوڑ دی ہے ہم نے حقیقت کی آرزو
خوابوں کا اِک دیار ہے اور ہم ہیں‌آج کل

مکمل درست

اِک شام ہی تو زیست کا حاصل ہے ہم نشیں
وہی ایک شامِ ادھار ہے اور ہم ہیں‌ آج کل
اس شعر کا مطلب ہی سمجھنے سے قاصر ہوں، اس لئے کچھ مشورہ نہیں دے سکتا۔ اگر قافیہ کی مجبوری نہ بھی ہو تو "شامِ قرض" سے مطلب۔۔ اس کو واضح کریں تو کچھ اصلاح کی سوچی جائے

عمران اب کے ہوش میں‌آئیں‌محال ہے
آس آنکھ کا خمار ہے اور ہم ہیں آج کل؂؂؂
فاتح کے مشورے کے مطابق "ہوش میں آنا ‘ کر دیں۔
آس آنکھ کا؟ یہ "اُس آنکھ کا تو نہیں ‘۔ اگر املا کی غلطی ہے تو درست کر لیں۔ شعر میں اور کوئی نقص نہیں۔

بہت بہت شکریہ استادِ محترم آپ نے قیمتی وقت دیا اس نا چیز کی کاوش کو درست سمت میں‌لانے کے لیئے،
آنکھیں‌بچھا رہے ہیں راہ میں بنا کے پھول،
یہ کیسا رہیگا جی ؟
اور ہر سمت والے فقرے کو کاٹ کے اگریہ لکھا جائے تو فٹ ہوگا کہ نہیں
آنکھوں‌میں‌اُس کا پیار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
اک حسنِ بے شمار ہے اور ہم ہیں‌آج کل


یا پھر نظروں‌میں‌

وہی ایک شام ادھار ہے،

اس شعر سے میں‌بھی مطمئن نہیں‌تھا لیکن وہی بات خرم بھائی والی کہ جو بھی لکھو شئر کرو،

اور :noxxx: ڈر ڈر کہ ایک اور بات بھی کہوں گا کہ "اک یہ بھی" میرے دماغ میں‌نہیں‌گھس رہا
وہ اسلیئے کہ یہاں کہنے کامطلب یہ ہے کہ فرصت ہی نہیں کسی اور کام کی اور اگر ساتھ میں‌بھی لگ جائے تو پھر اور بھی کچھ شامل کرنے کا اشارہ آجائے گا،


 

الف عین

لائبریرین
نظروں‌میں‌اُس کا پیار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
اک حسنِ بے شمار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
اچھا مطلع ہے، بدل دیں۔
اور وہ آنکھیں بچھانے والا شعر میں ’پر‘ کی جگہ ’میں‘ کیا جا سکتا ہے، بلکہ بہتر ہے۔ لیکن اسی صورت میں جس میں اصلاح دی گئی ہے۔
 

Imran Niazi

محفلین
نظروں‌میں‌اُس کا پیار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
اک حسنِ بے شمار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
اچھا مطلع ہے، بدل دیں۔
اور وہ آنکھیں بچھانے والا شعر میں ’پر‘ کی جگہ ’میں‘ کیا جا سکتا ہے، بلکہ بہتر ہے۔ لیکن اسی صورت میں جس میں اصلاح دی گئی ہے۔

بہت نوازش سر !
اب اِس شعر کا کیا ِیا جائے َ
اِک یہ ہی کاروبار ہے اور ہم ہیں‌آج کل
 
Top