کاشفی
محفلین
غزل
( احسن مارہروی )
دل میں سو زخم ہیں آنکھوں سے لہو جاری ہے
چمنستانِ محبت کی یہ گُل کاری ہے
ہر نفس آتے ہی، جانے کے لئے جاری ہے
زندگی کی تگ و دو، موت کی تیاری ہے
دردِ دل کا نہیں کرتا کوئی دنیا میں علاج
چارہ سازی سے مجھے یاس بنا چاری ہے
جانِ محزوں سے یہ کہہ کر دلِ وارفتہ چلا
میرا قصّہ تو ہوا ختم، تری باری ہے
آتے رہتے ہیں، وہی، اُن کہ جگہ، صورتِ خواب
بے وفاؤں کے خیالوں میں وفاداری ہے
دل میں سب کچھ ہے زباں پر نہیں آتا کچھ بھی
یہ عجب طرح کی مجبوری و مختاری ہے
ہیں طلسماتِ محبت کے مناظر جتنے
فتنہ انگیز نگاہوں کی فسوں کاری ہے
نہ گھٹے سوزشِ دل، لاکھ بڑھے ضبطِ سرشک
آگ پانی میں لگا دے یہ وہ چنگاری ہے
ڈھونڈھتے کیا ہو خطاکاریءِ احسن کا ثبوت
وہ خطاکار تو خود مجرمِ اقراری ہے