جیا راؤ
محفلین
دل میں وفا کی ہے طلب، لب پہ سوال بھی نہیں
ہم ہیں حصارِ درد میں اس کو خیال بھی نہیں
اتنا ہے اس سے رابطہ، چھاؤں سے جتنا دھوپ کا
گر یہ نہیں ہے ہجر تو پھر یہ وصال بھی نہیں
وہ جو انا پرست ہے۔ میں بھی وفا پرست ہوں
اس کی مثال بھی نہیں، میری مثال بھی نہیں
تم کو زبان دے چکے، دل کا جہان دے چکے
عہدِ وفا کو توڑ دیں اپنی مجال بھی نہیں
اس سے کہو کہ دو گھڑی ہم سے وہ آ ملے کبھی
مانا یہ ہے محال پر اتنا محال بھی نہیں
اس غزل کے شاعر کا نام کسی کو معلوم ہو تو ضرور بتائیے گا۔
ہم ہیں حصارِ درد میں اس کو خیال بھی نہیں
اتنا ہے اس سے رابطہ، چھاؤں سے جتنا دھوپ کا
گر یہ نہیں ہے ہجر تو پھر یہ وصال بھی نہیں
وہ جو انا پرست ہے۔ میں بھی وفا پرست ہوں
اس کی مثال بھی نہیں، میری مثال بھی نہیں
تم کو زبان دے چکے، دل کا جہان دے چکے
عہدِ وفا کو توڑ دیں اپنی مجال بھی نہیں
اس سے کہو کہ دو گھڑی ہم سے وہ آ ملے کبھی
مانا یہ ہے محال پر اتنا محال بھی نہیں
اس غزل کے شاعر کا نام کسی کو معلوم ہو تو ضرور بتائیے گا۔