محمد امین
لائبریرین
دل نے کسے حیات کا محور سمجھ لیا،
خود کو حصارِمرگ سے باہر سمجھ لیا،
گردِسفر میں ڈوب گیا کاروانِ شوق،
ریگِ رواں کو ہم نے سمندر سمجھ لیا،
ناکامیِ طلب کا گلہ کیوں، کہ ہم نے خود،
سنگِ نشاں کو راہ کا پتھر سمجھ لیا،
پروازِ عرش کا بھی دیا تھا سبق تجھے،
تو نے ہی اپنے آپ کو بے پر سمجھ لیا،
تیرے سپرد آج بھی ہے نظمِ کائنات،
تو نے ہی اختیار سے باہر سمجھ لیا،
روشن ہوں خاک تجھ پہ مقامِ دلِ حزیں،
عرضِ خرد کو تو نے تو جوہر سمجھ لیا۔۔۔
خود کو حصارِمرگ سے باہر سمجھ لیا،
گردِسفر میں ڈوب گیا کاروانِ شوق،
ریگِ رواں کو ہم نے سمندر سمجھ لیا،
ناکامیِ طلب کا گلہ کیوں، کہ ہم نے خود،
سنگِ نشاں کو راہ کا پتھر سمجھ لیا،
پروازِ عرش کا بھی دیا تھا سبق تجھے،
تو نے ہی اپنے آپ کو بے پر سمجھ لیا،
تیرے سپرد آج بھی ہے نظمِ کائنات،
تو نے ہی اختیار سے باہر سمجھ لیا،
روشن ہوں خاک تجھ پہ مقامِ دلِ حزیں،
عرضِ خرد کو تو نے تو جوہر سمجھ لیا۔۔۔