محمد عمر بن عبد العزیز
محفلین
دنیا میں بہت سارے لوگوں سے محبت کی گئی ان کو چاہا گیا، عشق کیا گیا، لیکن محدود۔ ایک جگہ سے محبت ملتی ہے تو دوسری جگہ نفرت کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے مگر ایک ہستی جہان میں ایسی آئی ہے جسے لامحدود چاہا گیا ہے۔اللہ رب العزت نے انہیں محبوب کل جہاں بنایا ہے۔ یقیناً یہ وہی ہستی ہے جو لا محدود کمالات کی حامل ہے۔
جس سے اپنوں نے محبت کی تو بے گانے بھی اس سے خالی نظر نہیں آتے جانوروں نے محبت کی، پتھروں نے محبت کی، پہاڑوں نے محبت کی، درختوں نے محبت کی خشک لکڑی نے محبت کی، درندوں نے محبت کی، راہبوں نے محبت کی، دنیا داروں نے محبت کی، اولیاء نے کی انبیاء نے کی، حتیٰ کہ خود رب العُلیٰ نے محبت کی۔ کون ہے جو اس محبت سے خالی رہا ہو؟ اگر کافر مخالفت بھی کرتے تھے تو صرف اپنی انا کے پیش نظر ورنہ وہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ محبت کے لائق ہیں تو یہی ہیں۔
کبھی تو وہ خود اعلان فرما رہے ہیں:
((أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ)) [صحيح البخاري:بَابُ خَرْصِ التَّمْرِ]
’’احد پہاڑ ہم سے محبت کرتاہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
کبھی گوہ آپ سے محبت کا اظہار ان الفاظ سے کرتی ہے:
((أَنْتَ رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَكَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ كَذَّبَكَ)) [المعجم الصغير للطبراني]
’’آپ رب العالمین کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں، جس نے آپ کی تصدیق کی وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے تکذیب کی وہ ناکام ہوگیا۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کھجور کا ایک خشک تنا جس پر ٹیک لگا کر محبوب خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے جب منبر بنا اور آپ اس پر خطبہ دینے کے لیے چڑھے تو وہ خشک ستون اس طرح رونے اور سسکنے لگا جیسے بچے سسکتے ہیں تو آپ نے شفقت وپیار سے اس پر ہاتھ رکھا تب وہ ستون چپ ہوا۔
حضرت ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ رومیوں کے خلاف لڑتے ہوے گھوڑے پر سوار ہیں اور گھوڑا تھکن سے چور ہوچکا ہے ایک قدم اٹھانا مشکل ہورہا ہے اسی دوران دشمن نے محاصرہ کرلیا اور ان کو زندہ گرفتار کرنے کے لیے آگے بڑھے تو احضرت تھوڑ ا جھکے اور گھوڑے سے فرمایا:
’’تھوڑی دیر میرا ساتھ دے دے ورنہ میں رسول اللہ کے روضے کے سامنے تیری شکا یت کروں گا۔‘‘
(جب محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آیا تو محبت نے جوش مارا اور گھوڑا محبت میں تڑپ اٹھا) کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ سننا تھا کہ گھوڑا ہنہنایا اور اس کے اندر گویا کہ بجلی سی بھر گئی اوراس طرح دوڑنے لگا جیسے بالکل تازہ دم ہو اور رومیوں کے حصار کو توڑکر باہر نکل آیا۔
اور یہ محبت صرف صحابہ کے دور کے ساتھ ہی محدود نہیں تھی بلکہ بعد میں آنے والے امتیوں کی محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں خود آقا بھی اس محبت کی گواہی دیتے ہیں ایک روایت میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علہیہ وسلم نے فرمایا (بعض حیثیات سے) میرے ساتھ شدت سے محبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے کہ ان میں سے ہر شخص یہ تمنا کرے گا کہ تمام اہل و عیال اور مال کے عوض مجھ کو دیکھ لے (یعنی سب کچھ خرچ کرکے بھی میرا دیدار ممکن ہوتا تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہوجاتے)
ایک کتاب میں تو عجیب بات لکھی تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
۔۔’’جو میرے بس میں سنتیں تھیں، میں نے اُن پر عمل کرلیا، ایک سنت کو پورا کرنے کی تمنا تھی، وہ یہ کہ سیدنا حسینh چھوٹے تھے، ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھایا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پیشاب کردیا، اس سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے گیلے ہوگئے۔ چنانچہ فرماتے تھے: اللہ نے بیٹی تو دی ہے، مگر نواسہ نہیں ہے، بڑی تمنا تھی کہ میں بھی اسے اٹھاتا او ر میرے بھی کپڑے گیلے ہوتے، مگر نواسہ نہ ہوا، چنانچہ نصیحت فرمائی کہ اگر میرے مرنے کے بعد اللہ تعالی میری بیٹی کو بیٹا عطا کردیں توا س بچےکو میری قبر پر بٹھادیا جائے یہاں تک کہ وہ وہاں پیشاب کر دے۔‘‘
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال (جوکہ ہمیشہ سادہ بستر استعمال کیا کرتے تھے) ایک مرتبہ کسی کے پاس بطور مہمان تشریف لے گئے تو اس نے اچھا خاصا انتظام کیا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب جونہی ہی بستر پر لیٹے تو بستر بہت نرم تھا تو ڈاکٹر صاحب فوراً بستر سے کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے ہمارے آقا نے پوری زندگی سادا بستر استعمال کیا ہے اور آج ہم اس طرح کے قیمتی اور نرم بستر استعمال کریں یہ کیسے ہوسکتا ہے (کافی دیر تک روتے رہے) فورا اٹھے اور خادم کو حکم دیاکہ اس کو اٹھا لو اور میرا اپنا بستر لے آؤ چنانچہ اسی سادے بستر پر رات گزاردی بلکہ جتنے دن وہاں بطور مہمان رہے اسی سادہ بستر پر سوتے رہے۔
مدینہ منورہ میں ایک بھوکا پیاسا بچہ تھا جس کے پاس نہ کھانے کو کچھ تھا اور نہ ہی پینے کو کچھ تھا ایک اللہ والے وہاں تشریف لے گئے انہوں نے اسے کھلایا پلایا اور کہا کہ ہمارے ساتھ ہندوستان آجائیں وہاں آپ کو کھانا بھی ملے گا اور بھی بہت سی سہولیات ملیں گی تو بچہ پہلے تو تیار ہوگیا لیکن پھر کہنے لگا کیا وہاں روضہ بھی ہوگا تو اللہ والے نے فرمایا نہیں روضہ وہاں نہیں ہوگا تو بچے نے تڑپ کر کہا اگر وہاں روضہ نہیں ہوگا تو میں وہاں کیا کروں گا یہاں بھوکا پیاسا رہنا برداشت کرلوں گا لیکن گنبد خضراء کا سایہ چھوڑنا برداشت نہیں کرسکتا۔
ایک مسلمان لوہار اپنی دوکان پر کام کر رہا تھا تو ایک قادیانی اسے اپنے مذہب قادیانیت کی دعوت دینے کے لیے آیا اور مرزے کی نبوت کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا تو مسلمان لوہار نے اس سے کہا: تو کہہ مرزا جھوٹا تھا کافر تھا ورنہ میرے ہاتھ میں گرم لوہا ہے میں اس سے تیری پٹائی کرتا ہوں تو اس نے ڈر کر کہنے لگا: مرزا جھوٹا تھا نبی نہیں تھا یہ تھا وہ تھا تو اب مسلمان نے اس مرزائی سے کہا اب یہ لوہا تو پکڑ اور (میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی تو دور کی بات ہے معمولی بے ادبی میں) مجھ سے ایک لفظ بھی کہلوا کے دکھا، میں مر تو جاؤں گا لیکن اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ب کی شان میں بے ادبی کا ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا مرزے کے جھوٹے ہونے اور میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ہونے کی یہ ایک دلیل ہی کافی ہے۔
تو اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب کل جہاں بنایا تھا۔
اور یہ محبت کا تعلق صرف یک طرفہ نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو محبت اپنی امت کو دی ہے وہ بھی بے مثال بلکہ اصل محبت ہے۔ کیونکہ نہ انہوں نے اس امت کو معراج کے موقع پر بھلایا اور نہ قربانی کے موقع پر بھلایا بلکہ ہر موقع پر یاد رکھا پتھر مارنے والوں کو بد دعا نہیں فرمائی چہرہ مبارک زخمی ہوا بد دعا نہیں فرمائی بلکہ یہی فرماتے رہے:
’’اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘
’’اے اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما کیوں کہ یہ مجھے نہیں جانتے۔‘‘
جب ایک امتی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محبت کو دیکھتا ہے جو انہیں اپنے ہر ہر امتی کے ساتھ تھی اور ان احسانات کو دیکھتا ہے جو ہر ہر امتی پر ہیں تو بے ساختہ اس کا دل پکار اٹھتا ہے:
الہی محبوب کل جہاں کو دل و جگر کا سلام پہنچے
نفس نفس کا درود اترے بشر بشر کا سلام پہنچے
بساط عالم کی وسعتوں سے جہان بالا کی رفعتوں سے
ملائکہ کے حسیں جلو میں عمر بھر کا سلام پہنچے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی اور سُچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
جس سے اپنوں نے محبت کی تو بے گانے بھی اس سے خالی نظر نہیں آتے جانوروں نے محبت کی، پتھروں نے محبت کی، پہاڑوں نے محبت کی، درختوں نے محبت کی خشک لکڑی نے محبت کی، درندوں نے محبت کی، راہبوں نے محبت کی، دنیا داروں نے محبت کی، اولیاء نے کی انبیاء نے کی، حتیٰ کہ خود رب العُلیٰ نے محبت کی۔ کون ہے جو اس محبت سے خالی رہا ہو؟ اگر کافر مخالفت بھی کرتے تھے تو صرف اپنی انا کے پیش نظر ورنہ وہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ محبت کے لائق ہیں تو یہی ہیں۔
کبھی تو وہ خود اعلان فرما رہے ہیں:
((أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ)) [صحيح البخاري:بَابُ خَرْصِ التَّمْرِ]
’’احد پہاڑ ہم سے محبت کرتاہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
کبھی گوہ آپ سے محبت کا اظہار ان الفاظ سے کرتی ہے:
((أَنْتَ رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَكَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ كَذَّبَكَ)) [المعجم الصغير للطبراني]
’’آپ رب العالمین کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں، جس نے آپ کی تصدیق کی وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے تکذیب کی وہ ناکام ہوگیا۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کھجور کا ایک خشک تنا جس پر ٹیک لگا کر محبوب خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے جب منبر بنا اور آپ اس پر خطبہ دینے کے لیے چڑھے تو وہ خشک ستون اس طرح رونے اور سسکنے لگا جیسے بچے سسکتے ہیں تو آپ نے شفقت وپیار سے اس پر ہاتھ رکھا تب وہ ستون چپ ہوا۔
حضرت ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ رومیوں کے خلاف لڑتے ہوے گھوڑے پر سوار ہیں اور گھوڑا تھکن سے چور ہوچکا ہے ایک قدم اٹھانا مشکل ہورہا ہے اسی دوران دشمن نے محاصرہ کرلیا اور ان کو زندہ گرفتار کرنے کے لیے آگے بڑھے تو احضرت تھوڑ ا جھکے اور گھوڑے سے فرمایا:
’’تھوڑی دیر میرا ساتھ دے دے ورنہ میں رسول اللہ کے روضے کے سامنے تیری شکا یت کروں گا۔‘‘
(جب محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آیا تو محبت نے جوش مارا اور گھوڑا محبت میں تڑپ اٹھا) کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ سننا تھا کہ گھوڑا ہنہنایا اور اس کے اندر گویا کہ بجلی سی بھر گئی اوراس طرح دوڑنے لگا جیسے بالکل تازہ دم ہو اور رومیوں کے حصار کو توڑکر باہر نکل آیا۔
اور یہ محبت صرف صحابہ کے دور کے ساتھ ہی محدود نہیں تھی بلکہ بعد میں آنے والے امتیوں کی محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں خود آقا بھی اس محبت کی گواہی دیتے ہیں ایک روایت میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علہیہ وسلم نے فرمایا (بعض حیثیات سے) میرے ساتھ شدت سے محبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے کہ ان میں سے ہر شخص یہ تمنا کرے گا کہ تمام اہل و عیال اور مال کے عوض مجھ کو دیکھ لے (یعنی سب کچھ خرچ کرکے بھی میرا دیدار ممکن ہوتا تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہوجاتے)
ایک کتاب میں تو عجیب بات لکھی تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
۔۔’’جو میرے بس میں سنتیں تھیں، میں نے اُن پر عمل کرلیا، ایک سنت کو پورا کرنے کی تمنا تھی، وہ یہ کہ سیدنا حسینh چھوٹے تھے، ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھایا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پیشاب کردیا، اس سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے گیلے ہوگئے۔ چنانچہ فرماتے تھے: اللہ نے بیٹی تو دی ہے، مگر نواسہ نہیں ہے، بڑی تمنا تھی کہ میں بھی اسے اٹھاتا او ر میرے بھی کپڑے گیلے ہوتے، مگر نواسہ نہ ہوا، چنانچہ نصیحت فرمائی کہ اگر میرے مرنے کے بعد اللہ تعالی میری بیٹی کو بیٹا عطا کردیں توا س بچےکو میری قبر پر بٹھادیا جائے یہاں تک کہ وہ وہاں پیشاب کر دے۔‘‘
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال (جوکہ ہمیشہ سادہ بستر استعمال کیا کرتے تھے) ایک مرتبہ کسی کے پاس بطور مہمان تشریف لے گئے تو اس نے اچھا خاصا انتظام کیا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب جونہی ہی بستر پر لیٹے تو بستر بہت نرم تھا تو ڈاکٹر صاحب فوراً بستر سے کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے ہمارے آقا نے پوری زندگی سادا بستر استعمال کیا ہے اور آج ہم اس طرح کے قیمتی اور نرم بستر استعمال کریں یہ کیسے ہوسکتا ہے (کافی دیر تک روتے رہے) فورا اٹھے اور خادم کو حکم دیاکہ اس کو اٹھا لو اور میرا اپنا بستر لے آؤ چنانچہ اسی سادے بستر پر رات گزاردی بلکہ جتنے دن وہاں بطور مہمان رہے اسی سادہ بستر پر سوتے رہے۔
مدینہ منورہ میں ایک بھوکا پیاسا بچہ تھا جس کے پاس نہ کھانے کو کچھ تھا اور نہ ہی پینے کو کچھ تھا ایک اللہ والے وہاں تشریف لے گئے انہوں نے اسے کھلایا پلایا اور کہا کہ ہمارے ساتھ ہندوستان آجائیں وہاں آپ کو کھانا بھی ملے گا اور بھی بہت سی سہولیات ملیں گی تو بچہ پہلے تو تیار ہوگیا لیکن پھر کہنے لگا کیا وہاں روضہ بھی ہوگا تو اللہ والے نے فرمایا نہیں روضہ وہاں نہیں ہوگا تو بچے نے تڑپ کر کہا اگر وہاں روضہ نہیں ہوگا تو میں وہاں کیا کروں گا یہاں بھوکا پیاسا رہنا برداشت کرلوں گا لیکن گنبد خضراء کا سایہ چھوڑنا برداشت نہیں کرسکتا۔
ایک مسلمان لوہار اپنی دوکان پر کام کر رہا تھا تو ایک قادیانی اسے اپنے مذہب قادیانیت کی دعوت دینے کے لیے آیا اور مرزے کی نبوت کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا تو مسلمان لوہار نے اس سے کہا: تو کہہ مرزا جھوٹا تھا کافر تھا ورنہ میرے ہاتھ میں گرم لوہا ہے میں اس سے تیری پٹائی کرتا ہوں تو اس نے ڈر کر کہنے لگا: مرزا جھوٹا تھا نبی نہیں تھا یہ تھا وہ تھا تو اب مسلمان نے اس مرزائی سے کہا اب یہ لوہا تو پکڑ اور (میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی تو دور کی بات ہے معمولی بے ادبی میں) مجھ سے ایک لفظ بھی کہلوا کے دکھا، میں مر تو جاؤں گا لیکن اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ب کی شان میں بے ادبی کا ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا مرزے کے جھوٹے ہونے اور میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ہونے کی یہ ایک دلیل ہی کافی ہے۔
تو اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب کل جہاں بنایا تھا۔
اور یہ محبت کا تعلق صرف یک طرفہ نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو محبت اپنی امت کو دی ہے وہ بھی بے مثال بلکہ اصل محبت ہے۔ کیونکہ نہ انہوں نے اس امت کو معراج کے موقع پر بھلایا اور نہ قربانی کے موقع پر بھلایا بلکہ ہر موقع پر یاد رکھا پتھر مارنے والوں کو بد دعا نہیں فرمائی چہرہ مبارک زخمی ہوا بد دعا نہیں فرمائی بلکہ یہی فرماتے رہے:
’’اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘
’’اے اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما کیوں کہ یہ مجھے نہیں جانتے۔‘‘
جب ایک امتی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محبت کو دیکھتا ہے جو انہیں اپنے ہر ہر امتی کے ساتھ تھی اور ان احسانات کو دیکھتا ہے جو ہر ہر امتی پر ہیں تو بے ساختہ اس کا دل پکار اٹھتا ہے:
الہی محبوب کل جہاں کو دل و جگر کا سلام پہنچے
نفس نفس کا درود اترے بشر بشر کا سلام پہنچے
بساط عالم کی وسعتوں سے جہان بالا کی رفعتوں سے
ملائکہ کے حسیں جلو میں عمر بھر کا سلام پہنچے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی اور سُچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین