آصف شفیع
محفلین
آیک غزل احباب کی خدمت میں۔
دل و دماغ میں تکرار ہو نہ جائے کہیں
ترے وجود سے انکار ہو نہ جائے کہیں
میں ایک اور جنم اب کہاں سے لاؤں گا
وہ شخص پھر مجھے درکار ہو نہ جائے کہیں
مخالفوں کو یہی ایک فکر لاحق ہے
یہ قوم نیند سے بیدار ہو نہ جائے کہیں
مرے خیال میں ہر دم جو محو رہتا ہے
مرے ہی نام سے بیزار ہو نہ جائے کہیں
مرے پڑوس کی دیوار گرنے والی ہے
مرا مکان بھی مسمار ہو نہ جائے کہیں
اسی لیے تو میں اکثر خموش رہتا ہوں
مرے ملال کا اظہار ہو نہ جائے کہیں
متاعِدرد کو دل سے نکال مت آصف
یہ جسم اور بھی بیکار ہو نہ جائے کہیں
( آصف شفیع)
دل و دماغ میں تکرار ہو نہ جائے کہیں
ترے وجود سے انکار ہو نہ جائے کہیں
میں ایک اور جنم اب کہاں سے لاؤں گا
وہ شخص پھر مجھے درکار ہو نہ جائے کہیں
مخالفوں کو یہی ایک فکر لاحق ہے
یہ قوم نیند سے بیدار ہو نہ جائے کہیں
مرے خیال میں ہر دم جو محو رہتا ہے
مرے ہی نام سے بیزار ہو نہ جائے کہیں
مرے پڑوس کی دیوار گرنے والی ہے
مرا مکان بھی مسمار ہو نہ جائے کہیں
اسی لیے تو میں اکثر خموش رہتا ہوں
مرے ملال کا اظہار ہو نہ جائے کہیں
متاعِدرد کو دل سے نکال مت آصف
یہ جسم اور بھی بیکار ہو نہ جائے کہیں
( آصف شفیع)