سید شہزاد ناصر
محفلین
دل و نگاہ میں اک بار پھر ٹھنی ہوئی ہے
غزل بنی نہیں، اور جان پر بنی ہوئی ہے
دلا ، وہ جا بھی چکا، مر بھی رہ، قرار بھی کر
طنابِ خیمہء احساس کیوں تنی ہوئی ہے
ہزار قرن جلایا گیا ہے روغن ِ چشم
یہ روشنائی زر ِخواب سے چَھنی ہوئی ہے
وہ سانولی سی جو اک آرزو پلی خوں میں
نمک میں بھیگ کے آئی تو گفتنی ہوئی ہے
قفس میں کی ہوئی گل کاریاں بتاتی ہیں
یہاں بہار کی آمد پہ سر ز نی ہوئی ہے
کئی چراغ نہیں جانتے کہ شب زادی
اِنہی کمینوں کےاحساس کی جنی ہوئی ہے
غزل بنی نہیں، اور جان پر بنی ہوئی ہے
دلا ، وہ جا بھی چکا، مر بھی رہ، قرار بھی کر
طنابِ خیمہء احساس کیوں تنی ہوئی ہے
ہزار قرن جلایا گیا ہے روغن ِ چشم
یہ روشنائی زر ِخواب سے چَھنی ہوئی ہے
وہ سانولی سی جو اک آرزو پلی خوں میں
نمک میں بھیگ کے آئی تو گفتنی ہوئی ہے
قفس میں کی ہوئی گل کاریاں بتاتی ہیں
یہاں بہار کی آمد پہ سر ز نی ہوئی ہے
کئی چراغ نہیں جانتے کہ شب زادی
اِنہی کمینوں کےاحساس کی جنی ہوئی ہے