دل پُرخوں کو یادوں سے الجھتا چھوڑ دیتے ہیں۔اسلم کولسری

دل پُرخوں کو یادوں سے الجھتا چھوڑ دیتے ہیں
ہم اس وحشی کو جنگل میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
نہ جانے کب کوئی بھیگے ہوئے منظر میں آ نکلے
دیارِ اشک میں پلکیں جھپکنا چھوڑ دیتے ہیں
اسے بھی دیکھنا ہے اپنا معیارِ پذیرائی
چلا آئے تو کیا کہنا، تقاضا چھوڑ دیتے ہیں
غموں کی بھیڑ جب بھی قریہ¿ جاں کی طرف آئے
بلکتے خواب خاموشی سے رستہ چھوڑ دیتے ہیں
کسی کی یاد سے دل کو منور تک نہیں کرنا
اسی کا نام دنیا ہے، تو دنیا چھوڑ دیتے ہیں
ہمیں خوشبو کی صورت دشتِ ہستی سے گزرنا تھا
اچانک یوں ہوا، لیکن یہ قصہ چھوڑ دیتے ہیں
ذرا سے اشک میں چھپ کر ان آنکھوں میں نہیں رہنا
چلو اسلم ہمی کوئے تمنا چھوڑ دیتے ہیں
 
Top