ایک غزل پیش کر رہا ہوں، کہیں کچھ کمی رہ گئی ہو تو نشاندہی فرما دیجیے گادل کا بوجھ اتارا جائے
سر دیوار سے مارا جائے
پھر کوئی دوست ہے دور بہت
پھر کوئی یار پکارا جائے
جینا ہے دشوار بہت
کیسے وقت گزارا جائے
شام تو کیا اب دن میں بھی
دل ڈوبا ہی ہمارا جائے
کھیل ہو شاید ان کا ایک
جان سے کوئی ہارا جائے
کیوں خاموش رہوں آخر
چھوٹتا کوئی پیارا جائے
اور کہاں تک بیٹھے اب
خود کو اور سنوارا جائے
آپ چھپیں ہے آپ کو کیا
ڈھونڈتا کوئی مارا جائے
روز بہ روز یہ دیکھیں عظیم
صبر کا اپنے یارا جائے
:::::