ناز خیالوی "دل کا ہر زخم جواں ہو تو غزل ہوتی ہے" ناز خیالوی

دل کا ہر زخم جواں ہو تو غزل ہوتی ہے
درد نس نس میں رواں ہو تو غزل ہوتی ہے

دل میں ہو شوقِ ملاقات کا طوفان بپا
اور رستے میں "چنہاں" ہو تو غزل ہوتی ہے

شوق حسرت کے شراروں سے جِلا پاتا ہے
جانِ جاں دشمنِ جاں ہو تو غزل ہوتی ہے

کچھ بھی حاصل نہیں یک طرفہ محبت کا جناب
اُن کی جانب سے بھی ہاں ہو تو غزل ہوتی ہے

شوکتِ فن کی قسم ، حسنِ تخیل کی قسم
دل کے کعبے میں اذاں ہو تو غزل ہوتی ہے

میں اگر ان کے خدوخال میں کھو جاؤں کبھی
وہ کہیں نازؔ کہاں ہو تو غزل ہوتی ہے
نازؔ خیالوی
 
Top