داغ دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں
یہ تو بیمار سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں

آپکا زور مرے دل پہ نہ کیونکر چلتا
کیا مرا حب کا عمل تھا کہ جو چلتا ہی نہیں

چمن دہر میں یہ عاشق ناکام ترا
وہ شجر ہے کہ کبھی پھولتا پھلتا ہی نہیں

نالہ نکلا کبھی دل سے تو کبھی آہ و فغاں
پر تری وصل کاارمان نکلتا ہی نہیں

اُس کے ہاتھوں نہ ہو جب تک کسی مظلوم کا خوں
اپنے ہاتھوں میں حنا وہ کبھی ملتا ہی نہیں

ہیں تری راہ محبت میں ہزاروں فتنے
دیکھ مجھ کو بجز اس راہ کے چلتا ہی نہیں

دن ڈھلے آنے کا وعدہ ہے کسی سے لیکن
آج یہ دن وہ قیامت ہے، کہ ڈھلتا ہی نہیں

شمع کی طرح سے روتا بھی ہے عاشق تیرا
مثل پروانہ فقط آگ میں جلتا ہی نہیں

موم ہوتا ہے مری آہ سے پتھر لیکن
سنگدل ایک ترا دل کہ پگھلتا ہی نہیں

خضر بھی تو اسی گرداب سے چکراتے ہیں
ڈوب کر بحر محبت میں اُچھلتا ہی نہیں

تیرہ بختی نگہ اپنی تو جانا ہم نے
کہ کبھی رنگ زمانے کا بدلتا ہی نہیں

کس طرح دل خم ابرو سے نکالوں اے داغ
پڑگیا پیچ کچھ ایسا کہ نکلتا ہی نہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت عمدہ غزل انتخاب کی ہے کاشفی صاحب۔ بہت شکریہ۔ ایک شعر میں ارماں کی بجائے ارمان آنا چاہیے۔ بعض جگہ اضافتیں بھی نہیں ہیں۔ ہو سکے تو درست کر دیجیے۔
نالہ نکلا کبھی دل سے تو کبھی آہ و فغاں
پر تری وصل کا ارماں نکلتا ہی نہیں
 
Top