دل کو میرے خُمِ خُمخانہ بنایا ہوتا - نظام الدولہ نواب محمد مردان علی خان

حسان خان

لائبریرین
دل کو میرے خُمِ خُمخانہ بنایا ہوتا
کاسۂ سر کو بھی پیمانہ بنایا ہوتا

ہوں فقط عقل کی افراط سے ششدر یا رب
اس سے بہتر تھا کہ دیوانہ بنایا ہوتا

کاش ہوتیں صدفِ دُر مری چشمِ گریاں
دانۂ اشک کو دُردانہ بنایا ہوتا

گر سلیماں کا حشم مجھ کو دیا تھا تو نے
خانۂ دل کو پری خانہ بنایا ہوتا

آتشِ غم سے جلانا ہی اگر تھا منظور
تو مجھے شوق سے پروانہ بنایا ہوتا

تیرہ بختی کا جو قسمت میں لکھا تھا سودا
کاش خالِ رخِ جانانہ بنایا ہوتا

خاکساری مجھے ملتی تو بڑی رفعت تھی
خاکِ کاشانۂ جانانہ بنایا ہوتا

اس غم آباد سے بہتر تھا کہ اے ربِ جہاں
دل کی اقلیم کو ویرانہ بنایا ہوتا

غمِ دوری سے ہے انگشت بدنداں رعناؔ
غم نہ تھا حال جو مستانہ بنایا ہوتا

(نظام الدولہ نواب محمد مردان علی خان)
 

عمراعظم

محفلین
کاش ہوتیں صدفِ دُر مری چشمِ گریاں
دانۂ اشک کو دُردانہ بنایا ہوتا

اس غم آباد سے بہتر تھا کہ اے ربِ جہاں
دل کی اقلیم کو ویرانہ بنایا ہوتا

زبردست حسان خان بھائی۔ شراکت کے لیئے شکریہ۔
 
یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اپنا دیوانہ مجھے بنایا ہوتا تُونے
کیوں خردمند بنایا، نہ بنایا ہوتا
خاکساری کے لیئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش!!!! سنگِ درِ جاناں بنایا ہوتا
نشہءِ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
دلِ صد چاک بنایا، تو بلا سے، لیکن
زلفِ مُشکیں کا تری، شانہ بنایا ہوتا
صوفیوں کے جو نہ تھا لائقِ صحبت تو مجھے
قابلِ جلسہءِ رِندانہ بنایا ہوتا
تھا جلانا ہی اگر دوریءِ ساقی سے مجھے
تو چراغِ درِ جاناں بنایا ہوتا
روز معمورہِ دُنیا میں خرابی ہے "ظفر"
ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا
 
Top