دل کو نہیں ہے جب میری عادت پہ اعتبار (اصلاح)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کچھ دنوں سے شاعری کی دیوی مہربان ہوئی ہے اس لیے غزل اور نظم کی ٹانگے توڑ رہا ہوں۔ ایک غزل اصلاح کے لیے پیش ہے باقی غزلیں بھی حاصر ہوتی رہے گی


دل کو نہیں ہے جب میری عادت پر اعتبار
کیسے کروں میں تیری قیادت پہ اعتبار

دل کو گمان ہے کہ نہ منزل کو پاسکوں
مشکل سے کر رہا ہوں مسافت پہ اعتبار

مظلوم ہوں میں ظلم سے ڈر تو گیا مگر
کرتا ہوں میں خدا کی قیامت پہ اعتبار

اک سمت ہیں مجاہد اک سمت فوج ہے
اب ہم کریں گے کس کی شہادت پہ اعتبار

مسلک نے کر دیا ہے نکما ہمیں بہت
مشکل ہوا ہے اپنی عبادت پہ اعتبار

ہر کام ہے خلافِ اسلام کے مگر
سب کر رہے ہیں تیری جہالت پہ اعتبار

آئیں ہیں میرے گھر میں کوئی کاٹ لے مجھے
مجھ کو نہیں ہے اپنی بصارت پہ اعتبار

خرم تری زبان میں تاثیر ہی نہیں
کیسے کروں میں تیری جسارت پہ اعتبار
 

شیزان

لائبریرین
کچھ دنوں سے شاعری کی دیوی مہربان ہوئی ہے اس لیے غزل اور نظم کی ٹانگے توڑ رہا ہوں۔ ایک غزل اصلاح کے لیے پیش ہے باقی غزلیں بھی حاصر ہوتی رہے گی
خرم بھائی غزل، نظم کو رکشے میں سوار کر لینا تھا نا۔۔ خواہ مخواہ ٹانگے توڑنا پڑے;)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کوئی بھی اس غزل کو ہاتھ نہیں ڈال رہا مجھے تو انور مسعود صاحب کا یہ شعر یاد آ رہا ہے اس غزل کی بے بسی دیکھ کر:p
یوں بحر سےخارج ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے
اور
مصرعوں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا:p

اب آپ بس اتنا بتا دیں کہ کچھ ہو سکتا ہے یا نہیں:D
 

ظفری

لائبریرین
دل کو گمان ہے کہ نہ منزل کو پاسکوں
مشکل سے کر رہا ہوں مسافت پہ اعتبار

واہ زبردست میرے چھوٹے بھائی ۔۔۔۔ کیا غضب کے خیالات ہیں ۔ بہت خوب ۔ آپ کے مزید خیالات کا انتظار رہے گا ۔:)
 

سید ذیشان

محفلین
کوئی بھی اس غزل کو ہاتھ نہیں ڈال رہا مجھے تو انور مسعود صاحب کا یہ شعر یاد آ رہا ہے اس غزل کی بے بسی دیکھ کر:p
یوں بحر سےخارج ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے
اور
مصرعوں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا:p

اب آپ بس اتنا بتا دیں کہ کچھ ہو سکتا ہے یا نہیں:D

خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ اچھی غزل کہی ہے :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین

شوکت پرویز

محفلین
جناب خرم شہزاد خرم صاحب!
بہت اچّھی غزل ہے، اور کچھ شعر تو بہت ہی خوبصورت ہیں، مثلا:
مسلک نے کر دیا ہے نکما ہمیں بہت
مشکل ہوا ہے اپنی عبادت پہ اعتبار

آئیں ہیں میرے گھر میں کوئی کاٹ لے مجھے
مجھ کو نہیں ہے اپنی بصارت پہ اعتبار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درج ذیل اشعار میں وزن ذرا گڑبڑا گیا ہے۔۔
اک سمت ہیں مجاہد اک سمت فوج ہے
اب ہم کریں گے کس کی شہادت پہ اعتبار
ہر کام ہے خلافِ اسلام کے مگر
سب کر رہے ہیں تیری جہالت پہ اعتبار
-----------
اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور حقیقی اصلاح اساتذہ کے لئے چھوڑتا ہوں۔
 
جناب خرم شہزاد خرم صاحب!
بہت اچّھی غزل ہے، اور کچھ شعر تو بہت ہی خوبصورت ہیں، مثلا:

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
درج ذیل اشعار میں وزن ذرا گڑبڑا گیا ہے۔۔

-----------
اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور حقیقی اصلاح اساتذہ کے لئے چھوڑتا ہوں۔

یار حقیقی اصلاح کا کام اساتذہ پر چھوڑ کر ان پر احسان تو نہ کرو :p
آپ اصلاح کردو۔ جو غلطی ہوگی اساتذہ دیکھ لینگے۔ :whistle:
 

الف عین

لائبریرین
اچھی کاوش ہے خرم÷ معذرت کہ میں دیکھ نہیں سکا اسے اب تک
پہلی بات، مطلع میں ایطا کا سقم ہے۔
دل کو نہیں ہے جب میری عادت پر اعتبار
کیسے کروں میں تیری قیادت پہ اعتبار
عادت اور قیادت قوافی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ قوافی میں یہی التزام ہو گا کہ قوافی ارادت، قیادت، عبادت یعنی ’ادت‘ پر ختم ہونے والے ہوں گے۔ لیکن اگلے ہی شعر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قوافی نہیں ہیں۔ اور مطلع میں ایطا ہو جاتا ہے۔ ہاں یوں ہو
دل کو نہیں ہے جب میری خصلت پر اعتبار
کیسے کروں میں تیری قیادت پہ اعتبار
تو درست ہو سکتا ہے۔
باقی اشعار کو بھی یہیں دیکھ لیتا ہوں:

دل کو گمان ہے کہ نہ منزل کو پاسکوں
مشکل سے کر رہا ہوں مسافت پہ اعتبار
÷÷درست، لیکن مطلب واضح نہیں ہو رہا۔

مظلوم ہوں میں ظلم سے ڈر تو گیا مگر
کرتا ہوں میں خدا کی قیامت پہ اعتبار
÷÷خدا کی قیامت کیوں؟
میں کر رہا ہوں روز قیامت پہ اعتبار
کر دو، بلکہ مزید بہتر صورت یوں ہو اک سمت ہیں مجاہد اک سمت فوج ہے
یہ عارضی ہےظلم سے جو ڈر تو گیا ہوں میں
لیکن میں کر رہا ہوں قیامت پہ اعتبار
یا اسی قسم کے کسی متبادل کے بارے میں سوچو۔

ک سمت ہیں مجاہد اک سمت فوج ہے
اب ہم کریں گے کس کی شہادت پہ اعتبار
پہلا مصرع بحر سے خارج، شہادت بمعنی گواہی یا قربانی؟ یہ بھی واضح نہیں

مسلک نے کر دیا ہے نکما ہمیں بہت
مشکل ہوا ہے اپنی عبادت پہ اعتبار
÷÷مسلک نے یا مسلکوں کی اختلاف اور جنگوں نے؟

ہر کام ہے خلافِ اسلام کے مگر
سب کر رہے ہیں تیری جہالت پہ اعتبار
پہلا بحر سے خارج

آئیں ہیں میرے گھر میں کوئی کاٹ لے مجھے
مجھ کو نہیں ہے اپنی بصارت پہ اعتبار
÷÷سمجھ میں نہیں آیا، کون آئی ہیں؟

خرم تری زبان میں تاثیر ہی نہیں
کیسے کروں میں تیری جسارت پہ اعتبار
درست
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دل کو نہیں ہے جب میری خصلت پر اعتبار
کیسے کروں میں تیری قیادت پہ اعتبار



دل کو گمان ہے کہ نہ منزل کو پاسکوں
مشکل سے کر رہا ہوں مسافت پہ اعتبار
(مطلب یہی ہے کہ مسافت تو کر رہا ہوں لیکن گمان یہی ہو رہاہے کہ منزل تک نہیں پہنچ سکوں گا)

مظلوم ہوں میں ظلم سے ڈر تو گیا مگر
میں کر رہا ہوں روز قیامت پہ اعتبار

ہے فوج اک طرف تو مجاہد ہیں ایک سمت
اب ہم کریں گے کس کی شہادت پہ اعتبار
(سر جی پاکستان میں رہنے والے حضرت اس شعر کا مطلب اچھی طرح سمجھ جائیں گے کیونکہ حالات کچھ ایسے ہی ہیں)

مسلک نے کر دیا ہے نکما ہمیں بہت
مشکل ہوا ہے اپنی عبادت پہ اعتبار
(سر جی مسلک ہوگا تو ہی اختلاف ہوں گے۔ میں نے یہ سوچ کر لکھا ہے)

ہر کام ہی خلاف ہے اسلام کے مگر
سب کر رہے ہیں تیری جہالت پہ اعتبار


آئے ہیں میرے گھر میں کوئی کاٹ لے مجھے
مجھ کو نہیں ہے اپنی بصارت پہ اعتبار
(سر جی وہی آئیں ہیں جن کے آنے کی امید نہیں تھی:p)

خرم تری زبان میں تاثیر ہی نہیں
کیسے کروں میں تیری جسارت پہ اعتبار

سر جی اب دیکھیں
 
Top