خرم شہزاد خرم
لائبریرین
کچھ دنوں سے شاعری کی دیوی مہربان ہوئی ہے اس لیے غزل اور نظم کی ٹانگے توڑ رہا ہوں۔ ایک غزل اصلاح کے لیے پیش ہے باقی غزلیں بھی حاصر ہوتی رہے گی
دل کو نہیں ہے جب میری عادت پر اعتبار
کیسے کروں میں تیری قیادت پہ اعتبار
دل کو گمان ہے کہ نہ منزل کو پاسکوں
مشکل سے کر رہا ہوں مسافت پہ اعتبار
مظلوم ہوں میں ظلم سے ڈر تو گیا مگر
کرتا ہوں میں خدا کی قیامت پہ اعتبار
اک سمت ہیں مجاہد اک سمت فوج ہے
اب ہم کریں گے کس کی شہادت پہ اعتبار
مسلک نے کر دیا ہے نکما ہمیں بہت
مشکل ہوا ہے اپنی عبادت پہ اعتبار
ہر کام ہے خلافِ اسلام کے مگر
سب کر رہے ہیں تیری جہالت پہ اعتبار
آئیں ہیں میرے گھر میں کوئی کاٹ لے مجھے
مجھ کو نہیں ہے اپنی بصارت پہ اعتبار
خرم تری زبان میں تاثیر ہی نہیں
کیسے کروں میں تیری جسارت پہ اعتبار
دل کو نہیں ہے جب میری عادت پر اعتبار
کیسے کروں میں تیری قیادت پہ اعتبار
دل کو گمان ہے کہ نہ منزل کو پاسکوں
مشکل سے کر رہا ہوں مسافت پہ اعتبار
مظلوم ہوں میں ظلم سے ڈر تو گیا مگر
کرتا ہوں میں خدا کی قیامت پہ اعتبار
اک سمت ہیں مجاہد اک سمت فوج ہے
اب ہم کریں گے کس کی شہادت پہ اعتبار
مسلک نے کر دیا ہے نکما ہمیں بہت
مشکل ہوا ہے اپنی عبادت پہ اعتبار
ہر کام ہے خلافِ اسلام کے مگر
سب کر رہے ہیں تیری جہالت پہ اعتبار
آئیں ہیں میرے گھر میں کوئی کاٹ لے مجھے
مجھ کو نہیں ہے اپنی بصارت پہ اعتبار
خرم تری زبان میں تاثیر ہی نہیں
کیسے کروں میں تیری جسارت پہ اعتبار