حسیب احمد حسیب
محفلین
غزل
دل کی حالت جسے سنانی ہے
نہ سنوں ! اس نے آج ٹھانی ہے
کوچ کا فیصلہ مرا تو نہیں
یہ سفر ہے , یہ ناگہانی ہے
یہ ارادہ مرا نہیں تھا کبھی
فیصلہ یہ تو آسمانی ہے
دوریاں قربتیں وجود میں ہیں
فاصلہ بس یہاں مکانی ہے
میں بھی پچھلوں کے قافلے میں ہوں
فرق تو ہے مگر ! زمانی ہے
بے حیائی کا دور ہے صاحب
اور شہوت زدہ جوانی ہے
اس محبت کا اک ثبوت ہے بس
دل پہ اک داغ ہی نشانی ہے
زندگی موت کا قرینہ ہے
موت کے بعد جاودانی ہے
میں ہواؤں کی زد پہ ہوں لیکن
ناؤ میری بھی بادبانی
یہ غزل زندگی حسیب کی ہے
یہ کہانی مری کہانی ہے
حسیب احمد حسیب
دل کی حالت جسے سنانی ہے
نہ سنوں ! اس نے آج ٹھانی ہے
کوچ کا فیصلہ مرا تو نہیں
یہ سفر ہے , یہ ناگہانی ہے
یہ ارادہ مرا نہیں تھا کبھی
فیصلہ یہ تو آسمانی ہے
دوریاں قربتیں وجود میں ہیں
فاصلہ بس یہاں مکانی ہے
میں بھی پچھلوں کے قافلے میں ہوں
فرق تو ہے مگر ! زمانی ہے
بے حیائی کا دور ہے صاحب
اور شہوت زدہ جوانی ہے
اس محبت کا اک ثبوت ہے بس
دل پہ اک داغ ہی نشانی ہے
زندگی موت کا قرینہ ہے
موت کے بعد جاودانی ہے
میں ہواؤں کی زد پہ ہوں لیکن
ناؤ میری بھی بادبانی
یہ غزل زندگی حسیب کی ہے
یہ کہانی مری کہانی ہے
حسیب احمد حسیب