سعیدالرحمن سعید
معطل
آتشیں زہر
رگ و پے میں ترے جاری ہے
جسم جلتا ہے ترا
سانس بھی رکتی ہے تیری
اور اس حبس کے جلتے ہوئے شعلوں کے گھنے جنگل میں
زہر آلودہ ہواؤں کی صدا آتی ہے
تیرے کانوں میں قیامت کی ندا آتی ہے
دل بکھر جاتا ہے دھنکی ہوئی روئی کی طرح
شہر میں نور کی بارش سے چمکتے چہرے
اپنی مہکی ہوئی سانسوں میں گلابی پیکر
وقت کی راہ پہ یوں جھومتے لہراتے ہیں
جیسے دریا کی پھسلتی ہوئی موجوں میں الجھتی موجیں
قہقہے، نرم، سنہری کرنیں
در و دیوار سے ٹکرا کے پلٹتے مڑتے
اس طرح پھیل رہے ہیں کہ مرے کانوں تک
گھنٹیاں بجنے لگیں نغموں کی
دل کے برگد پہ برسنے لگی شبنم جیسے
دھند میں لپٹا ہوا جسم ترا جنگل ہے
اپنی ہی آگ میں جلتا ہے کہ دربند ہیں آنکھوں کے ترے
ورنہ اس پار مرا شہر اگر دیکھے تو
نور میں ڈوباہوا شہر مرا
تیرے سینے میں چلے باد نسیم
حشر تھم جائے
ترے جسم کا جلتا جنگل
لہلہاتے ہوئے گلزار میں ڈھل جائے تو پھر
دل کے برگد تلے
گیان کی شبنمی بوندوں کا برسنا بھی سنے
اور پھر جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنول کی صورت
کھل اٹھے تیرا وجود
سعید الرحمن سعیدؔ
رگ و پے میں ترے جاری ہے
جسم جلتا ہے ترا
سانس بھی رکتی ہے تیری
اور اس حبس کے جلتے ہوئے شعلوں کے گھنے جنگل میں
زہر آلودہ ہواؤں کی صدا آتی ہے
تیرے کانوں میں قیامت کی ندا آتی ہے
دل بکھر جاتا ہے دھنکی ہوئی روئی کی طرح
شہر میں نور کی بارش سے چمکتے چہرے
اپنی مہکی ہوئی سانسوں میں گلابی پیکر
وقت کی راہ پہ یوں جھومتے لہراتے ہیں
جیسے دریا کی پھسلتی ہوئی موجوں میں الجھتی موجیں
قہقہے، نرم، سنہری کرنیں
در و دیوار سے ٹکرا کے پلٹتے مڑتے
اس طرح پھیل رہے ہیں کہ مرے کانوں تک
گھنٹیاں بجنے لگیں نغموں کی
دل کے برگد پہ برسنے لگی شبنم جیسے
دھند میں لپٹا ہوا جسم ترا جنگل ہے
اپنی ہی آگ میں جلتا ہے کہ دربند ہیں آنکھوں کے ترے
ورنہ اس پار مرا شہر اگر دیکھے تو
نور میں ڈوباہوا شہر مرا
تیرے سینے میں چلے باد نسیم
حشر تھم جائے
ترے جسم کا جلتا جنگل
لہلہاتے ہوئے گلزار میں ڈھل جائے تو پھر
دل کے برگد تلے
گیان کی شبنمی بوندوں کا برسنا بھی سنے
اور پھر جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنول کی صورت
کھل اٹھے تیرا وجود
سعید الرحمن سعیدؔ
آخری تدوین: