سیما علی
لائبریرین
دل کے زخموں پہ وہ مرہم جو لگانا چاہے
دل کے زخموں پہ وہ مرہم جو لگانا چاہے
واجبات اپنے پرانے وہ چکانا چاہے
میری آنکھوں کی سمندر میں اترنے والا
ایسا لگتا ہے مجھے اور رلانا چاہے
دل کے آنگن کی کڑی دھوپ میں اک دوشیزہ
مرمریں بھیگا ہوا جسم سکھانا چاہے
سیکڑوں لوگ تھے موجود سر ساحل شوق
پھر بھی وہ شوخ مرے ساتھ نہانا چاہے
آج تک اس نے نبھایا نہیں وعدہ اپنا
وہ تو ہر طور مرے دل کو ستانا چاہے
میں نے سلجھائے ہیں اس شوخ کے گیسو اکثر
اب اسی جال میں مجھ کو وہ پھنسانا چاہے
میں تو سمجھا تھا فقط ذہن کی تخلیق ہے وہ
وہ تو سچ مچ ہی مرے دل میں سمانا چاہے
اس نے پھیلائی ہے خود اپنی علالت کی خبر
وہ ضیاؔ مجھ کو بہانے سے بلانا چاہے