فرخ منظور
لائبریرین
دمِ سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے
کوئی تو ہو کہ تری جس سے گفتگو کی جائے
یہ نکتہ کٹتے شجر نے مجھے کیا تعلیم
کہ دکھ تو ملتے ہیں گر خواہشِ نمو کی جائے
کشیدہ کارِ ازل تجھ کو اعتراض تو نئیں
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کی جائے
میں یہ بھی چاہتا ہوں عشق کا نہ ہو الزام
میں یہ بھی چاہتا ہوں تیری آرزو کی جائے
محبتوں میں تو شجرے کا بھی نہیں مذکور
تو چاہتا ہے کہ مسلک پہ گفتگو کی جائے
مری طرح سے اجڑ کر بسائیں شہرِ سخن
جو نقل کرنی ہے میری تو ہو بہ ہو کی جائے
(عباس تابش)
کوئی تو ہو کہ تری جس سے گفتگو کی جائے
یہ نکتہ کٹتے شجر نے مجھے کیا تعلیم
کہ دکھ تو ملتے ہیں گر خواہشِ نمو کی جائے
کشیدہ کارِ ازل تجھ کو اعتراض تو نئیں
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کی جائے
میں یہ بھی چاہتا ہوں عشق کا نہ ہو الزام
میں یہ بھی چاہتا ہوں تیری آرزو کی جائے
محبتوں میں تو شجرے کا بھی نہیں مذکور
تو چاہتا ہے کہ مسلک پہ گفتگو کی جائے
مری طرح سے اجڑ کر بسائیں شہرِ سخن
جو نقل کرنی ہے میری تو ہو بہ ہو کی جائے
(عباس تابش)