دمک رہی ہے زمیں - ظفر اقبال

سعدی غالب

محفلین
دمک رہی ہے زمیں، آسماں چمکتا ہے
جو میں نہیں ہوں تو کیا کچھ یہاں چمکتا ہے

سکون میں ہیں سمندر کی نرم خو موجیں
فلک پہ چاند یونہی رائیگاں چمکتا ہے

ہمارا عشق اب اس مرحلے پہ ہے آخر
کہ آگ سرد ہے ، خالی دھواں چمکتا ہے

جہاں جہاں مجھے مجرم دیا گیا ہے قرار
وہیں وہیں ورق ِ داستاں چمکتا ہے

دراصل میری ہےآنکھوں کی روشنی کا فتور
جو میرے سامنے سارا جہاں چمکتا ہے
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت انتخاب شیئر کرنے پر شکریہ۔

ذیل کے دو مصرعوں میں ٹائپنگ کی اغلاط ہیں۔ انھیں دوبارہ دیکھ لیجیے گا:
سکوں میں ہیں سمندر کی نرم خو موجیں

دراصل میری آنکھوں کی روشنی کا ہے فتور
شاید یہ مصرعے یوں ہوں:
سکون میں ہیں سمندر کی نرم خو موجیں
دراصل میری ہے آنکھوں کی روشنی کا فتور
 
Top