سعدی غالب
محفلین
دمک رہی ہے زمیں، آسماں چمکتا ہے
جو میں نہیں ہوں تو کیا کچھ یہاں چمکتا ہے
سکون میں ہیں سمندر کی نرم خو موجیں
فلک پہ چاند یونہی رائیگاں چمکتا ہے
ہمارا عشق اب اس مرحلے پہ ہے آخر
کہ آگ سرد ہے ، خالی دھواں چمکتا ہے
جہاں جہاں مجھے مجرم دیا گیا ہے قرار
وہیں وہیں ورق ِ داستاں چمکتا ہے
دراصل میری ہےآنکھوں کی روشنی کا فتور
جو میرے سامنے سارا جہاں چمکتا ہے
جو میں نہیں ہوں تو کیا کچھ یہاں چمکتا ہے
سکون میں ہیں سمندر کی نرم خو موجیں
فلک پہ چاند یونہی رائیگاں چمکتا ہے
ہمارا عشق اب اس مرحلے پہ ہے آخر
کہ آگ سرد ہے ، خالی دھواں چمکتا ہے
جہاں جہاں مجھے مجرم دیا گیا ہے قرار
وہیں وہیں ورق ِ داستاں چمکتا ہے
دراصل میری ہےآنکھوں کی روشنی کا فتور
جو میرے سامنے سارا جہاں چمکتا ہے