دند گَھسائی --- معین نظامی

الف نظامی

لائبریرین
دَند گَھسائی
میرے وجیہ، خوش وضع، خوش گفتار، خوش فکر اور خوش خط والد کے یاد رہ جانے والے تفنّنات اور بذلہ گوئیوں میں سے ایک "دَند گھَسائی" کی دل چسپ اصطلاح بھی ہے جسے وہ موج میں آ کر اپنی مخصوص خوش طبعی اور بشّاش لہجے میں جب بھی کہتے، بہت پُر لطف لگتا.

اس کا مفہوم دانت گِھسانے کی اجرت، معاوضہ یا ہدیہ ہے. وہ بسا اوقات دوستوں یا درویشوں کی پر تکلف دعوت کرتے تو ان میں سے بعض کو کچھ نقد نذرانہ بھی پیش کرتے کہ ہماری دعوت کھانے میں آپ کے اچھے دانتوں کو جو زحمت ہوئی ہے اور وہ جو تھوڑا بہت گِھسے ہیں، یہ ناچیز ہدیہ اس کا حقیر سا عوضانہ ہے، اسے قبول فرما کے عزت افزائی کیجیے.

کبھی کسی بے تکلف دوست سے اچانک کہتے: آپ ان شاء الله فلاں دن، فلاں مقام پر، فلاں وقت ہم تقریباً اتنے لوگوں کی یادگارقسم کی دعوت فرما رہے ہیں. امید ہے کہ اس سراپا سعادت دعوت کا مقطعِ طعام دَند گَھسائی شریف ہو گی. یہ محض دھمکی ہوتی. دعوت نہیں، دَند گَھسائی.

وہ مزاحاً یہ بھی کہا کرتے کہ اکثر علما اور مشائخ اپنے مفلوک الحال عقیدت مندوں کو از خود شرفِ میزبانی عطا فرماتے ہیں، انواع و اقسام کی دعوتیں اڑاتے ہیں، حلوے مانڈے کھاتے ہیں، پھر ان غریبوں سے اچھے خاصے معقول نقد نذرانے یعنی دَند گَھسائی کی توقع بھی رکھتے ہیں اور اگر خاطر خواہ نذرانہ پیشِ خدمت نہ ہو پائے تو ان بزرگواروں کی خاطرِ عاطر پر بہت گراں گزرتا ہے. وہ ایسے متعلقین کو آدابِ سلوک سے مطلق بے بہرہ گردانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی برگزیده سیانا ایسے غافل نوواردانِ طریقت کو کماحقہ آداب الطّالبین پڑھائے سکھائے.

بہت بعد میں معلوم ہوا کہ یہی اصطلاح، انھی معنوں میں قدیم فارسی میں بھی موجود ہے، اسے "دندان مُزد" کہتے ہیں اور اس کے بیسیوں شواہد ملتے ہیں. والدِ ماجد نے یقیناً اسی اصطلاح کا فصیح و بلیغ پنجابی ترجمہ کیا ہو گا. یہ ایک پرانا پسندیدہ تہذیبی معمول تھا جو آہستہ آہستہ پُرتکلف رسم بنا اور ہر متکلفانہ رسم کی طرح تکلیف دہ صورت اختیار کرتا کرتا تدریجاً متروک ہو گیا.

ایسی ہی ایک پرانی اصطلاح "پا مُزد" بھی تھی جو سفر کر کے آئے ہوئے قاصدوں، ہر کاروں، دوستوں، عزیزوں اور مساکین کو پیش کیے جانے والے نقد و جنس نذرانے کے مفہوم میں رائج تھی. چل کر آنے والے قدموں کا معاوضہ. بعض سرکاری کارندے اسے رعایا سے جبراً بھی وصولتے تھے.

انھی سے ملتی جلتی ایک قدیم اصطلاح "نعل بہا"ہے جو فارسی کے پرانے تاریخی منابع میں بہ کثرت ملتی ہے. گھوڑوں کے نعل گِھسنے کا معاوضہ.کسی شہر یا علاقے پر حملہ کرنے والا لشکر اگر مذاکرات وغیرہ کے نتیجے میں باقاعدہ جنگ کے بغیر یا حتمی فتح سے پہلے صلح کر لیتا تو جو بھاری تاوان یا جنگی جرمانہ وصول کر کے ٹلتا، وہ رقم اور مال و اسباب نعل بہا کہلاتا. نعل بہا میں مال و زر کے علاوہ بعض اوقات غذائی اجناس، ملبوسات، اسلحہ، غلام اور کنیزیں بھی ہوتیں. نعل بہا پر متفق ہونے کے لیے بھی بہت بھاؤ تاؤ ہوا کرتا. غزنوی، غوری، تاتاری اور تیموری وغیرہ اس فن کے خاصے ماہر تھے.

ہمارے پیارے دوست، رفیقِ کار اور خوب صورت شاعر ڈاکٹر شعیب احمد صاحب نے اسی ذیل میں اپنے ایک شعر میں ایک نئی اور خوب صورت اصطلاح وضع کی ہے:
یا مری جان، میرا دل نہ دُکھا
یا مجھے میری "دل دُکھائی" دے
معین نظامی
٢٩- اکتوبر ٢٠٢٣ء
 
آخری تدوین:
Top