دنیا، دنیاداروں کا گھر، اپنا کیا

چھوڑ دیئے ہیں باقی سب در، اپنا کیا
دنیا، دنیاداروں کا گھر، اپنا کیا

مجھ جاہل کو صرف توکل کافی ہے
باقی جانیں عالم بہتر، اپنا کیا

ساحل ہے کشتی کی قسمت یا گرداب
لہریں جانیں، جانے ساگر، اپنا کیا

ٹھان ہی لی جب اپنا خون بہانے کی
سینہ جانے، جانے خنجر، اپنا کیا

کانچ کی چھت ہے، شیشے کی دیواریں ہیں
لوگوں کے ہاتھوں میں پتھر، اپنا کیا

آنکھیں نوچ رہے ہیں پچھتاوے کے ہاتھ
ڈوب چلے ہیں سارے منظر، اپنا کیا

ظرف کا ہے میزان سبھی کے ہاتھوں میں
کون ہے اعلیٰ کون ہے کمتر، اپنا کیا

مانگا کس نے، کس نے پایا، کس نے دیا
کون ہے آقا کون گداگر ، اپنا کیا

مالی کو ہی فکر نہیں جب گلشن کی
کنکر آئیں، آئیں پتھر، اپنا کیا

کون ہے رویا، کون سنبھلنا سیکھ گیا
پتھر جانے، جانے ٹھوکر، اپنا کیا

رہتے ہیں ہر روز قیامت کی زد میں
برپا ہو جائے گر محشر، اپنا کیا

بانٹ رہے ہو جنت دوزخ فرقوں میں
ملا، ہم مسلم نہ کافر، اپنا کیا



استادِ محترم الف عین سے اصلاح کے بعد آپ محفلین کے ذوق کی نذر
 
مجھ جاہل کو صرف توکل کافی ہے
باقی جانیں عالم بہتر، اپنا کیا
واہ بہت خوب
ٹھان ہی لی جب اپنا خون بہانے کی
سینہ جانے، جانے خنجر، اپنا کیا
بہت شاندار زبردست
مالی کو ہی فکر نہیں جب گلشن کی
کنکر آئیں، آئیں پتھر، اپنا کیا
بلکل سچ بیاں کیا ،بہت اعلی
ماشاءاللہ ،
امجد بھائی بہت لاجواب غزل پیش کی ،
سلامت رہیں ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شاندار غزل ہے امجد بھائی!

بہت بہت داد اور مبارکباد قبول کیجے۔

آخری شعر پر نظرِ ثانی کیجے اور ملا کی ضد میں اسلام کو نہ چھوڑیں۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت اعلیٰ جناب راجا صاحب۔ لیکن آپ کی مزاحیہ شاعری کا زیادہ انتظار رہتا ہے۔ خوش رہیے۔
 
بہت اعلیٰ جناب راجا صاحب۔ لیکن آپ کی مزاحیہ شاعری کا زیادہ انتظار رہتا ہے۔ خوش رہیے۔
حوصلہ افزائی کے لئے شکریہ فرخ بھیا، آپ کا جو انتظار ہے، یہی تو سچا پیار ہے۔
انشاءاللہ مزاحیہ شاعری کے ساتھ حاضر ہوتا ہوں :)
 
Top