دنیا بھر سے کتابیں ۔فرزانہ اعجاز کی کتابوں کے ہمراہ
تلمیذ الف عین نایاب نیرنگ خیال شمشاد زبیر
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
---- تئیس اگست ، 2013 کی ایک صبح کتابوں کے ساتھ طلوع ہوئی۔ محکمہ ڈاک اور کوئیر کمپنی کے ہرکارے ایک ساتھ ہی ہانپتے کانپتے پہنچے تھے۔ اور مختلف رنگارنگ پارسل تھما کر شتابی سے رخصت ہوئے۔شمس الرحمان فاروقی کی ” ہمارے لیے منٹو صاحب “، ش فرخ کی آپ بیتی ” جینے کا جرم“ ابن کلیم احسن نظامی کی ملتان سے ارسال کردہ کتابیں دلی یاترا حصہ ووم، محاسن خط رعنا اور کرنل افتخار حسین کی خودنوشت ”وردی کا سفر“ ان تمام کتابوں کی تفصیل اور منتخب کردہ اوراق ”توشہ خاص “کے ہمراہ مذکورہ بالا پی ڈی ایف فائل کا حصہ بنا دیے گئے ہیں
مگر آج صرف اور صرف بات ہوگی ا ن کتابوں کی جسے ” توشہ خاص “ کا نام دیا ہے۔ یہ لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی محترمہ فرزانہ اعجاز کی ارسال کردہ کتابوں کا تذکرہ ہے آپ انہیں ادیبہ کہہ سکتے ہیں لیکن ”ہمارے “لیے وہ فرزانہ آپا ہیں۔یہ ہم کا صیغہ بھی خوب ہے۔ اہل لکھنؤ اس کا خوب استعمال کرتے ہیںیہ استعمال ان کے خون میں رچا بسا ہے۔ حسن رضوی نے اپنے سفرنامہ” دیکھا ہندوستان“ (اشاعت 1992)میں لکھنو کے ایک ایسے نوعمر کوچوان کا ذکر کیا ہے جو اپنے گھوڑے کو آہستگی سے چلنے پر مجبور کررہا تھا ۔جب مصنف نے منزل پر پہنچنے میں دیر ہوتی دیکھ کر کوچوان کو گھوڑے کی تواضع چابک سے کرنے کے لیے کہا تو لڑکے نے جواب میں کہا کہ حضور! انہوں نے صبح سے کچھ کھایا نہیں ہے۔
تنگی وقت کا سامنا کرتے پریشان حال حسن رضوی بھڑکنے کے بجائے پھڑک اٹھے۔
لاہور میں قیام پذیر ایک خاتون کو راقم سے ایم فل کے مقالے کے سلسلے میں مدد درکار تھی،
گفتگو ہورہی تھی۔ کہیں میں اپنے جانب اشارہ کرتے ہوئے کہہ بیٹھا کہ ” اس سلسلے میں ہماری ایک کتاب بھی دیکھ لیجیے گا“
خاتون نے قہقہ لگایا کہنے لگیں ” ہم سے کیا مراد ہے آپ کی ؟ کیا آپ کی کتاب کے لکھے جانے میں کچھ اور لوگ بھی ملوث تھے ؟ “
یہ سب باتیں اس لیے کہ چند روز ہوئے فرزانہ صاحبہ نے راقم کو فون کیا۔ دیر گئے تک باتیں کرتی رہیں۔ وہ اپنے لیے ہم کا صیغہ استعمال کررہی تھیں۔ان کے زبان سے اسے سننا نہایت بھلا لگ رہا تھا۔ یہ ان کی تربیت تھیتہذیب کا رچاؤ تھا اسے لکھنؤ کا حسن کہیے کوثر و تسنیم میں دھلی زبانوں کا اعجاز۔ ۔۔۔راقم کے شہر میں زبانیں پان اور گٹکے سے دھلتی ہیں نوعمر لڑکے منہ کھولتے ہیں تو ان کا لب و لہجہ سن کر خاموشی اختیار کرلینے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ نوعمر لڑکے کسی بھی شہر ، کسی بھی تہذیب و ماحول کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت ڈھنگ سے کی گئی ہو تو اجنبی ایک لحظے میں اطراف کے ماحول کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
افسوس کہ زبان کے معاملے میں یہ پورا شہر ہی عمر شریف اور شہزاد رضا کے کسی اسٹیج ڈرامے کا حصہ لگتا ہے۔
میں دیر گئے تک فرزانہ اعجاز کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتا رہا تھا ۔گرچہ خاکسار نے اپنی جانب سے پوری کوشش کی تھی کہ مخاطب پر یہی تاثر جائے کہ ”ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں “دوران گفتگو ، لہجے کو نستعلیق بنانے کی پوری پوری کوشش کی تھی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی ۔۔۔۔۔۔یقینا یہ سب سن کر ہماری مخاطب ہماری جہالت پر مسکرا رہی ہوں گی۔
گفتگو میں لاکھ زور ماریے لیکن وہ ماحول بھلا کہاں سے لائیے گا جس میں ہمہ وقت انسان کچھ نہ کچھ سیکھنے کی حالت میں رہتا ہے ؟
فرزانہ اعجاز کی ارسال کردہ کتابوں میں کہکشاں (مختلف شعراءکی تخلیقات پر مرتب کردہ کتاب )، بیس کہانیاں ، حرف مکرر نہیں ہوں میں (والد محترم پر مضامین کا مجموعہ)حاضری کا شرف(سفر مقامات مقدس) کے علاوہ ان کی یادداشتوں کی کتاب ”آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا“ اور سوانحی مضامین کا مجموعہ ” بھلائے نہ بنے“ شامل تھی۔ ان تمام کتابوں سے مختلف ابواب مذکورہ بالا پی ڈی ایف فائل کا حصہ بنا دیے گئے ہیں لیکن اس وقت خصوصیت سے جس کتاب کا ذکر ہے وہ ہے
”آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا“ ۔
ادھر ایک ماہ کے عرصے میں اوپر تلے تین خواتین کی خودنوشتیں شائع ہوئی ہیں۔ عابدہ رحمانی صاحبہ کی ”مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا“راولپنڈی سے ، شائستہ جمال کی ”زندگی اک تماشا“ فیصل آباد سے اور کراچی کی صحافی ش فرخ کی خودنوشت ”جینے کا جرم“ لاہور سے شائع ہوئی ہے۔اور اب ”آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا“ کو بھی اسی صف میں شمار کیا جائے گا۔
’آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا“ میں فرزانہ اعجاز نے قاری کو لکھنو کی سیر کرائی ہے۔ یہ کتاب لکھنؤ ہی سے شائع ہوئی ہے ۔ سرورق پر کیمرے کی محفوظ کردہ ایک خوبصورت و پرشکوہ مسجد کی تصویر ہے۔ کتاب میں مصنفہ نے اپنے لیے ہم کا صیغہ ہی استعمال کیا ہے جو پڑھنے والے کو بھلا بھلا سا لگتا ہے۔ رہی رہی کسر بیانئے نے پوری کردی ہے جس میں ایک معصومیت کا عنصر غالب ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی چھوٹی سی بچی اپنی داستان حیات بیان کررہی ہو ۔ ان کے والد لکھنو کی معروف قابل احترام ہستی مانے جاتے تھے۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محل کی تہذیب کے وارث۔
فرزانہ اعجاز لکھتی ہیں:
” چونکہ ہماری پر ورش ادبی ماحول میں ہوئی ، کچھ ایسے ماحول میں جہاں بات بات پر محاورے اور استعارے اور اشعار پڑھے جاتے تھے، فارسی کے جملے بولے جاتے تھے اور اس بات پر بہت زور دیا جاتا تھا کہ صحیح زبان بولی اور لکھی جائے ۔ مرد حضرات تو خیرفصیح و بلیغ زبان بولتے ہی تھے، خواتین اور بچے بھی صاف زبان بولتے اور بامحاورہ گفتگو کرتے تھے۔ خصوصاً بچوں کو غلط تلفظ یا غلط الفاظ بولنے پر ٹوک دیا جاتا تھا“
بچپن کی یادوں میں مصنفہ کو تقسیم ہند کے فوری بعد کے شب و روز خوب یا درہے تھے ۔ اس زمانے کے لکھنؤ کو یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں
:
” کیا خوبصورت، پرسکون زمانہ تھا۔کوئی ہنگامہ نہیں۔ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ہر تجربہ نیا تھا۔ آبادی اس قدر کم تھی کہ گھ ر کے باہر ہر شخص ایک دوسرے کو پہچانتا تھا۔ ہم لوگ سلطان المدرس، مشن اسپتال، کوئین میری روڈ اور میڈیکل کالج کے چوراہے (کو کہ ہمارے گھر سے خاصا دور تھا )آکر خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔“
مصنفہ کے والد ہمہ وقت کچھ نہ کچھ لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ان کے اہل خانہ آسودگی کی زندگی بسر کرسکیں۔ تیج بہادر پریس نے کئی ہزار صفحات پر مشتمل مشکوة شریف چھپوائی تو مصنفہ کے والدین اس کی کتابت کے بعد کی تصحیح کافی عرصے تک کرتے رہے تھے۔ والدین کی آنکھیں خراب ہوگئیں لیکن مشکوة شریف کی برکت سے گھر کے مالی حالات سدھر گئے اور انہی دنوں مصنفہ کی والدہ نے پہلی مرتبہ سونے کا زیور خریدا یہ کان کی بالیں تھیں۔ بقول ان کے، گھر میں فراغت کے انبار تھے، دولت کے نہیں۔زندگی اطمینان سے بسر ہوتی تھی۔ ادبی شخصیات کا گھر میں آنا جانا تھا۔ مجاز کو مصنفہ نے چچا لکھا ہے جو ان کے والد اور چچا کے دوست تھے۔ اسی طرح مولانا حسرت موہانی کو بھی انہوں نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا۔ مصنفہ کی جانب سے بچپن کی یادوں میں وہی سب کچھ رقم کیا گیا ہے جو ایک چھوٹی بچی کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ گڑیوں کے کھیل، عمر رسیدہ خواتین کی نصیحتیں، رشتے ، ناطے کاکوری کے کباب ہرے ہرے سنگھاڑے فرید آباد کی مہندی فروخت کرنے والے ایک بزرگ جو ہمدم اخبار کے شمارے بھی بیچا کرتے تھے اور لوگ ان کی مدد کرنے کی غرض سے پرانے اخبار بھی خرید لیا کرتے تھےنخاس بازار میں میں گونجنے والی آواز ” ہائے ہائے ربوبڑے بڑے کنگھو“لکھنو کی خوبصورتی ۔۔۔۔ گھنے سایہ دار درخت ۔۔۔۔ روڈویز کی عالیشان بسیں اور ٹیڑھی کوٹھی میں واقع ان کا دفتر اور پھر ایک بس کا رنگیلا ڈرائیور جو جان بوجھ کر اس طرح بریک لگایا کرتا تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے اوپر گر گر پڑیں اور اس کی اس حرکت پر لوگوں نے ایک روز ’رنگیلے پیا ‘ کی خوب خبر لی تھی۔ مصنفہ کو ہائی کورٹ والی بس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر ابن صفی مرحوم کے ناولوں کے کردار حمید اور فریدی کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ ۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔
زندگی کی بس کی جو بریک لگی تو فرزانہ اعجاز دو ایک نہیں پورے 36 برس قبل 1978 ءمیں لکھنو سے مسقط جا گریں اور تادم تحریر وہیں قیام پذیر ہیں۔
فرزانہ اعجاز نے ایک مزے کا واقعہ لکھا ہے۔لکھنو شہر میں شہر کوتوال نے نواب صاحب سے گزارش کی کہ’کنگ جارج پنجم‘ کا انتقال ہوگیا ہے ، آپ ان کی یاد میں کچھ اشعار کہیے۔ نواب صاحب تمام ہندستانیوں کی انگریزی حکومت سے جلے بیٹھے تھے۔ فی البدیہ کہنے لگے:
سچ تو یہ ہے بڑا کمال کیا
جارج پنجم نے انتقال کیا
آپ مذکورہ بالا شعر میں جارج پنجم کی جگہ کسی ناپسندیدہ سیاست دان کا نام رکھ کر پڑھیے، لطف دوبالا ہوجائے گا۔
فرزانہ اعجاز کے والد کے پاس شعراءکی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ جوش، مجروح، فنا نظامی، ماچس لکھنوی ، آفتاب لکھنوی! دلی کے لال قلعے میں ہونے والے مشاعرے میں پاکستانی شعراءبھی موجود تھے۔ فراق گو رکھپوری سخت علالت کے باوجود شریک ہوئے تھے۔ فرزانہ اعجاز بھی وہاں سامعین میں ریڈیو کی ٹیم کے قریب ہی براجمان تھیں۔ ریڈیو والے آپس میں فراق کی حالت دیکھ کر کہہ رہے کہ ” ارے ارےان کو ریکارڈ کرو، کیا پتہ پھر موقع نہ ملے “۔
فنا نظامی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
:
میرا تو تعلق ہے دنیا کے ہر حسیں سے
واعظ تجھے مبارک ، پابند حور رہنا
جلوہ ہو تو جلوہ ہو، پردہ ہو تو پردہ ہو
توہین تجلی ہے، چلمن سے نہ جھنکا کر ٭
ایک مرتبہ فنا نظامی، فرزانہ اعجاز کے گھر منعقدہ ایک نشست میں اپنا کلام سنا رہے تھے ۔ مرد،مردانہ میں اور خواتین گھر کے اندرونی حصے میں مشاعرہ سن رہی تھیں۔ فرزانہ اعجاز کے بھائی بھی بیٹھے تھے جن کی عمر اس وقت چند برس تھی۔ فنا نظامی کے ایک شعر ان کا ننھا منا بھائی بہت مسکرایا۔ شعر یہ تھا:
رند جنت میں جا بھی چکے
واعظِ محترم رہ گئے
مشاعرے کے بعد فرزانہ اعجاز نے بھائی سے مسکراہٹ کا سبب پوچھا ’ ’تمہاری سمجھ میں کیا آیا جو مسکرارہے تھے؟“
کہنے لگا، فنا صاحب کہہ رہے تھے
رند جنت میں جا بھی چکے
والد ِ محترم رہ گئے
دوسروں کے ساتھ ساتھ فنا نظامی بھی مسکرا اٹھے تھے۔
’آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا“ میں ایک جگہ افسانہ نگار (ڈاکٹر)صبیحہ انو ر کا تذکرہ پڑھ کر خوشی ہوئی جنہیں منصنفہ نے ”وجاہت چچا کی ہونہار بیٹی “لکھا ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ نے ’اردو میں خودنوشت سوانح حیات‘ کے موضوع پر لکھنؤ یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 400 صفحات پر مشتمل ان کا یہ اہم ، قابل قدر و پرمغز مقالہ کتابی شکل اسی نام سے 25 اگست 1982 کو نامی پریس لکھنؤ سے شائع ہوا تھا۔
کل 344 صفحات پر مشتمل ’آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا“ کا ابتدائی حصہ جس میں مصنفہ نے اپنے بچپن و جوانی کے حالات بیان کیے ہیں، 124 صفحات پر ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ کتاب متفرق سوانحی مضامین، بیرون ممالک کے اسفار وغیرہ کے تفصیلی تذکروں سے پرُ ہے۔ یہ تمام اوراق کتاب سے مربوط ہیں۔
ساڑھے تین بج گیا، خانہ خدا، دلکش روایات اور لطیف بغاوت ، ابو کی پھوپھیاں ، حنا بلڈنگ، دلارے صاحب، ماسٹر ناٹے محمود، دادی کی فقیرنیاں نامی ابواب میں مصنفہ نے لکھنو کی تہذیبی روایات اور اس سے وابستہ شخصیات کا تذکرہ کیا ہے اور خوب کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب خود کو پڑھوانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ’آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا“ کی قیمت 250 مقرر کی گئی ہے اور یہ کتاب لکھنؤ میں درج ذیل پتوں سے حاصل کی جاسکتی ہے
:
برکت محل، فرنگی محل
-- 9 فرنگی محل
دانش محل بک سیلر، امین آباد