دنیا دوبارہ جڑی بوٹیوں کے فطری اور بے ضرر علاج کی طرف متوجہ ہور ہی ہے

hakimkhalid

محفلین
تحریر: حکیم قاضی ایم اے خالد​
دنیا کی 86فیصد اور پاکستان کی76فیصد آبادی ہر بل (یونانی ) ادویات استعمال کرتی ہے
طب یونانی کی صنعت دواسازی کو فروغ دیکر پاکستان کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے
ouu42baqjw.jpg
طب یونانی جسے طب ِمشرقی اور طبِ اسلامی بھی کہا جاتاہے' کے تحت جڑی بوٹیوں سے علاج کی افادیت زمانہ قدیم سے مسلمہ ہے۔ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک ہی اب اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جدید اینٹی بایوٹک ادویات کی افادیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن ان کے استعمال سے بعض اوقات انسانی جسم پر سخت مضراثرات پڑتے ہیں جن سے تکلیف میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوجاتاہے یا کوئی اور بیماری آلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس ایٹمی دور میں پوری دنیا کے لو گ دوبارہ جڑی بوٹیوں کے فطری اور بے ضرر علاج کی طرف متوجہ ہور ہے ہیں کیونکہ طبِ یونانی( اسلامی )یا ہر بل سسٹم آف میڈیسن میں ادویات کا استعمال موسم' عمر اور مزاج کو مد نظر رکھ کر کروایاجاتاہے جسکی وجہ سے ان دیسی ادویات کے کسی قسم کے سائیڈ ایفیکٹس نہیں ہوتے۔ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)کی رپورٹ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود دنیا کی 86فیصد آبادی ہربل ادویات استعمال کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے فنڈبرائے آبادی کے مطابق پاکستان کی 76فیصد آبادی مختلف امراض کے سلسلے میں طب یونانی کی ہربل میڈیسنز کا استعمال کرتی ہے۔سال 2009دنیا بھر میں ہربل میڈیسنزکے حوالے سے انتہائی سود مند رہااس سال کے شروع میں ہی عالمی ادارہ صحت نے تسلیم کیا کہ جڑی بوٹیاں موثر ذریعہ علاج ہیںعالمی ادارہ صحت نے مزید کہا کہ روایتی ادویات دورِ حاضر کی بیماریوں کا موثر علاج ہیںلہذا انہیں صحت کی ابتدائی دیکھ بھال میں شامل کیا جانا چاہیئے۔ روایتی ادویات کے فروغ سے متعلق ڈبلیو ایچ کی بیجنگ میں ہونے والی اولین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ مارگریٹ چان نے کہا کہ چین جہاں جڑی بوٹیوں کو مغربی ادویات کے ساتھ علاج کیلئے تجویز کیا جاتا ہے ایک اچھااور قابلِ تقلید نمونہ ہے۔چین میں تقریبا دو ہزار سال سے علاج کے لیے روایتی ادویات استعمال کی جارہی ہیں۔ انہیں نزلے زکام سے لے کر سرطان تک'ہر مرض کے علاج کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔جڑی بوٹیوں' خوراک اور ورزش کے امتزاج سے علاج کا اندازاب مغرب میں بھی مقبول ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دور حاضر کی بیماریوں کے علاج کے لیے مغربی ادویات کے ساتھ ساتھ قدیم طریقہ علاج کو بھی استعمال کیا جانا چاہیئے۔ روایتی اور مغربی علاج کے دونوں نظاموں کو آپس میں متصادم نہیں ہونا چاہیئے۔ صحت کی ابتدائی دیکھ بھال کے تناظر میں ان دونوں کو ملاجلا کر اس طرح ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے کہ ہر طریقہ علاج کے بہترین پہلو کو استعمال کیا جائے اور دونوں کے کمزور پہلوؤں پر قابو پایاجائے۔مارگریٹ چان نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے خیال میں روایتی ادویات کے مغربی ادویات کی نسبت مضر اثرات کم ہوتے ہیں اور وہ عام بیماریوں مثلا اسہال' ملیریا وغیرہ کے لیے سستا اور موثر علاج ہیں۔ روایتی ادویات جدید دور کے رہن سہن کے انداز سے جنم لینے والی بیماریوں مثلا ذیابیطس'دل کے امراض اور ذہنی بیماریوںکو دور کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہیںلیکن اس وقت جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دواؤں کی مارکیٹ اربوں ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور ان میں سے بہت سی ادویات کو یہ جانے بغیر فروخت کیا جارہا ہے کہ ان میں کون کون سے اجزا شامل ہیں اور اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ روایتی ادویات کو صحت کی دیکھ بھال کے جدید نظام میں ضم کرنے سے سائنسی تحقیق کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ انہیں نظرانداز نہ کیا جائے اور انہیں محفوظ اور موثر طور پر استعمال کیا جائے۔اس وقت پاکستان، بھارت، سری لنکا، برما، چین اور بنگلا دیش سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس طریقہء علاج کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے جرمنی میں بچوں کا علاج ہر بل میڈیسنز سے کیا جارہا ہے اس سلسلے میں وہاں سونف کا استعمال کثرت سے کیا جاتاہے۔سعودی عرب میں جڑی بوٹیوں کے دواخانے ''عطارہ'' کے نام سے چل رہے ہیں۔ اور مدینہ یونیورسٹی میں طب اسلامی کا ایک باقاعدہ شعبہ تدریس وتحقیق موجود ہے۔برطانیہ میں کئی فرمیں مختلف جڑی بوٹیوں سے دمہ، کھانسی، یرقان، پتھری، گنٹھئے اور بواسیر سمیت کئی اور امراض کے علاج کے لیے ادویات تیار کررہی ہیں۔ روس اور چین میں کینسر، بھگندر، بواسیر، بلڈپریشر، آنتوں ومعدہ کی امراض، اور دل کی شیریانوں میں خون کے انجماد کو روکنے کے لیے ہر بل میڈیسنز کا استعمال کیاجارہاہے۔ان کی مسلمہ افادیت کے پیش نظراب یہ ادویات یورپ میں بھی ایکسپورٹ ہو رہی ہیں۔ دماغی امراض کے لیے لہسن سے ''روسی پنسلین'' نامی دواتیار کی گئی ہے۔امریکہ میں جگہ جگہ نیچرل فوڈز کے اسٹور قدرتی جڑی بوٹیاں بھی فراہم کر رہے ہیں۔ان میں ملٹھی، تلسی اور گائوربان سے کف سیرپ تیار کئے جاتے ہیں۔جو امریکہ میں ایلوپیتھک کف سیرپ کی بہ نسبت زیادہ مقبول ہیں۔پیٹ کے امراض کے لیے سونف، الائچی، اور پودینہ سے تیار کردہ''ہربل ٹی'' کا استعمال امریکہ کے گھر گھر تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح جو کی ہر بل ٹی بہت پی جاتی ہے۔ سوئٹرز لینڈ میں نزلہ وزکام کے لیے بنفٹہ کی جائے بہت پی جاتی ہے گائوزبان سے دل کے امراض کا علاج کیاجارہا ہے۔فلپائن اور ویت نام میں جڑی بوٹیوں کو صحت کے لیے مفید اور لازمی قرار دے کر ان سے دوائیں بنانے کاکام شروع کر دیا گیا ہے اور ہر ویت نامی کوتاکید کی گئی ہے کہ وہ کم از کم دس جڑی بوٹیوں کی پہنچان رکھے تاکہ انہیں گھریلوعلاج میں دشواری پیش نہ آئے۔چائنہ کے متعددمطالعاتی دوروںکے دوران میں نے وہاں نوے فیصد چائنیز کو ہر بل میڈیسنز سے علاج کرواتے دیکھا مشہور زمانہ جڑی بوٹی ''جن سنگ'' وہاں کو لڈڈرنکس، پائوڈر اور چائے کی شکل میں بے انتہا استعمال ہوتی ہے اسی طرح اس کے کیپسول، ایمپوئل اور دیگر ادویات کی بے شمار ورائٹی ہے۔ اس وقت چین میں کم وبیش دوسو سے زائد لیبارٹریز میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق ہو رہی ہے اور ان کی کاشت کے لیے ہر گائوں میں ایک قطعہ زمیں مخصوص کیا گیا ہے اس طرح چین نے ہر بل ادویات کے لیے خام مال یعنی دیسی جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں اپنے ملک کو مکمل طورپر خودکفیل بنالیا ہے۔چائنہ میں سرکاری سطح پر ہربل سسٹم آف میڈیسن کے باقاعدہ بیسیوں ہسپتال، طبی تعلیم کے بے شمار کالج اور تحقیقی مراکز قائم کئے جاچکے ہیں۔ چینی طب اور طب اسلامی میں گہری مماثلت ہے اسکا مشاہدہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹومرحوم کی پاکستان طبی کانفرنس کے ایک وفد کو کہی ہوئی باتیں یاد آئیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ''میں غریبوں کا بڑاہمدرد ہوں اور چونکہ طب اسلامی سے زیادہ غریب لوگ استفادہ کرتے ہیں،لہٰذا میں طب اسلامی کی ترقی اور تحقیق میں پورا تعاون کروں گا میری زندگی غریب عوام کے لیے وقف ہے چینی طب، طب اسلامی سے ملتی جلتی ہے لہٰذا چین اور پاکستان اس سلسلے میں بھی تعاون کریں گے۔'' لہسن جیسی کم خرچ قدرتی دوا سے پچیدہ امراض بلڈپریشر، شوگر، کینسر، انجائنا اور انجماد خون وغیرہ جیسے کئی امراض کی ادویات چائنہ تیار کررہا ہے چینی ماہرین اور ہربل فزیشنز نے ملک میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کرنے کے بعد مختلف بیماریوں کاکامیاب علاج دریافت کرکے اور یورپی ایلوپیتھک ادویات کی کھپت کم سے کم کرکے صحت کے شعبہ میں خود انحصاری کی راہ اپنائی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)نے بھی تمام ملکوں کی حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں مقامی جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں ترقی دے کر اپنا مسئلہ صحت حل کریں۔عالمی ادارہ صحت کی اس اپیل کے جواب میں چین، روس، کوریا، ملائشیا، سعودی عرب، کویت، انڈونیشیا، مصر، سری لنکا، برما، سوڈان، نیپال اور ہندوستان نے جڑی بوٹیوں سے آراستہ روائیتی طریقہ علاج کو اپنے پرائمری ہیلتھ کیئرپروگراموں میں شامل کیا ہوا ہے ان ممالک میں ملکی طب سے استفادہ کے لیے حکومتی سطح پر طبی تعلیمی ادارے، تدریسی ہسپتال اور دیسی جڑی بوٹیوں کے تحقیقی ادارے قائم ہیں اور مفت میں ملنے والی ملکی جڑی بوٹیوں پر ریسرچ کرکے مسئلہ صحت کو حل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔اس سلسلے میں عالمی ادارئہ صحت کے مرکزی آفس میں دیسی طب کا ایک الگ شعبہ باقاعدہ طورپر دن رات کام کر رہاہے۔یورپی اور ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا بھر کے ایلوپیتھک اور دیگر طریقہ ہائے علاج کے ڈاکٹرزاب جڑی بوٹیوں کی افادیت کے قائل ہو چکے ہیں اور خود بھی ہربل میڈیسنز پر ریسرچ نیز ان کی پریکٹس بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ٹریڈ یشنل میڈیسن طب یونانی کو 1976ء میں (WHO) نے مسلمہ طریق علاج کی حیثیت سے تسلیم کیاجبکہ21 ۔دسمبر 1978ء کا دن اطبائے پاکستان اور طب یونانی اسلامی نیز اس سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کیلئے انتہائی اہم اور تاریخ ساز دن تھااس دن محسنِ طب اسلامی صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے آل پاکستان طبی کانفرنس بلوا کرطب اسلامی کو باقاعدہ سرکاری طور پر تسلیم کیا اور اس سلسلے میںمراعات و سرکاری طبی اداروںاور عہدوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔فیڈرل گورنمنٹ میںطب کی وزارت قائم کی گئی۔مشیر طب کی تقرری کا فیصلہ کیا گیا اور یہ عہدہ شہید پاکستان حکیم محمد سعید کو تفویض کیا گیا۔یاد رہے کہ 21دسمبرکو ہرسال طب یونانی کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ اس وقت چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں سرکاری و غیر سرکاری اور نجی ایلوپیتھک ہسپتالوں اور کلینکس قائم ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کے دور دراز علاقوں، دیہاتوں کی واضح اکثریت (عالمی اداروں کے مطابق 76%)عام اور پچیدہ ومہلک امراض مثلاََ یرقان، کالایرقان (ہیپاٹائیٹس بی، سی وغیرہ) جگر کے امراض' دمہ، کالی کھانسی، السر اور معدہ کے دیگر امراض وغیرہ کے لیے اطبائے کرام سے رجوع کرتی ہے اگرچہ ملک کے طول وعرض میں میں ایسے نام نہادحکماء بھی موجود ہیں جو ان کو الیفائیڈ ہونے کے باوجود لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں یہ عطائی حکماء قانون میں سقم کی وجہ سے گرفت میں نہیں آتے۔ بہرحال ملک میں کوالیفائیڈ اور سند یافتہ اطباء کی بھی کمی نہیں۔نیشنل کونسل فارطب وفاقی وزارتِ صحت حکومت پاکستان سے رجسٹرڈاطباء کی تعداد 55455ہے جن میں سے پنجاب میں 34850، سندھ میں 16800صوبہ سرحد میں 2850بلوچستان میں 475اور آزار کشمیر میں بھی 475اطباء پریکٹس کررہے ہیں ملک میں خاتون طبیبائوں کی تعداد 5500ہے اس وقت وطن عزیز میں کل رجسٹرڈ مطب 44200ہیں جبکہ 2550افراد کے لیے ایک رجسٹرڈ طبیب موجود ہے نیشنل کونسل فارطب سے منظور شدہ 33طبیہ کالجز میںڈپلومہ کورس اور دو یونیورسٹیوں'ہمدرد یونیورسٹی کراچی و اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورمیں ڈگری کورس کے کم وبیش 7000سے زائد طلباء وطالبات طب یونانی' اسلامی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان طبیہ کالجز سے ہرسال 1200سے 1500طبیب اور لیڈی طبیبائیں فارغ التحصیل ہوتے ہیں جن میں سے 60فیصد 6ماہ ہائوس جاب کرکے کونسل سے رجسٹریشن کرواتے ہیں نیشنل کونسل فارطب کو ان 33طبیہ کالجز کے لیے سالانہ پندرہ لاکھ کی گرائٹ ملتی ہے جو اوئٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق اور صرف تین ایم بی بی ایس ایلوپیتھک ڈاکٹر بنانے کے خرچ کے مطابق ہے۔یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ ملک میں موجود میڈیکل کالجز وزارتِ تعلیم کے تحت ہیں جبکہ طب یونانی اسلامی کی تعلیم وفاقی وزارت صحت کے دائرہ انتظام میں ہے پاکستان میں سالانہ طب یونانی کی ادویات اور جڑی بوٹیوں کی فروخت کی مالیت کا اندازہ 150ملین روپے ہے جبکہ یورپی ممالک میں 6500ملین ڈالر سالانہ، ایشیاء میں 2300ملین ڈالر، شمالی امریکہ میں 1500ملین ڈالر اور امریکہ میں سالانہ 40ملین ڈالر مالیت کی ہر بل میڈیسنز کا استعمال کیاجاتاہے پاکستان میںطب یونانی کی ہر بل میڈیسنز تیار کرنے والے چھوٹے بڑے 400ادارے کام کررہے ہیں۔جن میں سے 86ادارے پاکستان طبی فارماسیوئیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن (PTPMA)سے رجسٹرڈ ہیں جن میں سے پنجاب میں 61، سندھ میں 23سرحد میں ایک اور بلوچستان میں بھی ایک ادارہ کام کررہا ہے۔ جبکہ ان ادویات پر ریسرچ کرنے والے اداروں کی تعداد 8ہے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 29ملین روپے کی یونانی ادویات اور جڑی بوٹیاں قانونی اور غیر قانونی طریقہ سے درآمد کی جاتی ہیں جبکہ 245ملین روپے سالانہ کی ہر بل میڈیسن اور جڑی بوٹیاں قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جاتی ہیں۔
ہمسایہ ملک بھارت میںآیورویدک اور سدھا طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ طب یونانی( اسلامی )کوبھی مکمل اہمیت دی گئی ہے اور اسے باقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔اس سلسلے میںسینٹرل کونسل فار ریسرچ آیورویدک اینڈسدھا(36یونٹس) سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن(25یونٹس)اور دیگر حکومتی ادارے قائم ہیں جہاں ہیپاٹائٹس'ایڈز'برص(پھلبہری)سمیت بیسیوں پچیدہ اور(ایلوپیتھک طریقہ علاج کے مطابق) ناقابل علاج امراض کا کامیاب یونانی علاج کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس امر کا فقدان ہے دیگر تمام شعبوںاور اداروں کی تعمیر میں کوتا ہیوں کے ساتھ ساتھ ہم اپنی قوم کے مسئلہ صحت کے حل کیلئے گذشتہ سالوں کی طرح سال 2009میںبھی اغیار کے محتاج رہے ہیں حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1942ء میں طلبائے طبیہ کالج دہلی سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ''جب زمام اختیار مسلمانوں کے ہاتھ آئے گی تو وہ تمام علوم و فنون اسلامیہ کے ساتھ طب اسلامی (یونانی)کے تحفظ و بقا کا بھی خیال رکھیں گے کیونکہ یہ ایک بہترین قومی ورثہ ہے اور اس کی حفاظت قوم کا فرض ہے۔''اسی طرح مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے 1956ء میں کراچی میں پاکستان طبی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ''طب اسلامی اور اس کا تحفظ ایک مسلمہ امر ہے اگرچہ طب اسلامی کی روشنی طب مغرب کی مصنوعی چمک کے سامنے دھندلا گئی ہے تاہم آج بھی ہمارے عوام اس طریقہ علاج کو پسند کرتے ہیں ۔یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کوئی بھی فن حکومت کے تعاون اور امداد کے بغیر بلندیوں کو نہیں چھو سکتا ۔طب اسلامی (یونانی) عوام کی عادات و مزاج کے عین مطابق ہے اس خصوصیت نے اس طریقہ علاج کو ہر آزمائش میں کامیاب کیا ہے۔ اس لئے اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے ۔پاکستان میں اس کیلئے ہر دروازہ کھلا رہنا چاہئے طبی ہسپتال 'طبی شفا خانے اور تجربہ گاہیں بالکل ان ہی خطوط پر جن پر طب مغرب کو یہ سب سہولتیں فراہم کی گئی ہیں مہیا کی جائیں تاکہ امراض اور ادویات پر تحقیقات کی جائیں ۔'' لیکن۔۔ آج نصف صدی سے زائد گذرنے کے باوجود طب اسلامی کی حالت انتہائی ابتر اور سنگین تر ہے۔طبی جماعتیں'طب اسلامی کے معاملات اورطبی ادارے زبوں حالی کا شکار ہوچکے ہیں ۔طبی نظام تعلیم انتہائی ناقص ہوچکا ہے۔ طبی دواسازی کا کوئی پرسان حال نہیںجبکہ پاکستان کے علاوہ تمام دنیا میں اس طریقہ علاج کی ترویج و ترقی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اچھے معاشروں میں عوام کی صحت کی فکرعوام سے زیادہ حکومتوں کو ہوتی ہے یونانی طریقہ علاج برصغیر میں ثقہ نامور حکیموں کے توسط سے معتبر اور موثر رہا ہے حکیم محمد اجمل خان 'شہید پاکستان 'شہید فن طب حکیم محمد سعید'حکیم محمد حسن قرشی'حکیم عبدالرحیم اشرف 'حکیم نیر واسطی سمیت دیگر نامور حکماء نے اسے باقاعدہ فن اور سائنس کا درجہ عطا کیا 'یہ حکومت کا کام تھا کہ وہ یونانی طریق علاج کے اداروں کو ریگو لرائزکر کے طب یونانی کی سرپرستی کرتی ۔طبی دواسازی کی صنعت کو ہر ممکن سہولیات بہم پہنچا کریونانی ادویات کے کلینیکل ٹرائل کے بعد ان کے لئے مناسب پیکنگ 'ریکارڈنگ اور مارکیٹنگ کا میکنزم ڈیولپ کرتی۔لیکن ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دباؤ اور ان سے وابستہ مفاد پرست سرکاری عناصر (بیوروکریسی )کے زیر اثر اس شعبہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ''عطائیت ''کو فروغ حاصل ہوا ناقص طبی نظام تعلیم کی وجہ سے نیم حکیم اور حکمت و طب سے نابلد افراد و ادارے چور دروازوں سے اس فن میں داخل ہو گئے یونانی ادویات کی آڑ اور صرف دولت کی ہوس میں غیر معیاری دواسازی(تحقیقاتی رپورٹنگ کے مطابق اس میں وفاقی و صوبائی وزارت صحت کے اہلکاران اور افسران بھی ملوث ہیں) کو عروج حاصل ہوا اور فن طب انحطاط پذیر ہوتا چلا گیا۔حکومت ہر شعبے میں اپنی ہی بے حسی اور لاپرواہی کے نتائج کو قانون بنانے کے اعلان میں چھپاتی ہے لمبے چوڑے بلند و بانگ دعووں کا اعلان کرتی ہے اور نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات رہتا ہے شائد دونمبر حکیموں کی طرح ہمارے حکمران بھی ایسے ہی ہیں لہذا رعایا کیسے صحتمند ہو؟
حکومت یونانی طریق علاج کو قواعدو ضوابط کے تحت منظم اوراس طریق علاج میں در آنے والی خامیوں کو دور کر کے عوام کے مسئلہ صحت کو حل کرنے کیلئے ایک بنے بنائے نیٹ ورک سے استفادہ حاصل کر سکتی ہے۔اور اس کا دائرہ کار دیہاتوں تک بڑھا سکتی ہے جہاں ایلوپیتھک ڈاکٹر جانے سے کتراتے ہیں۔یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایلوپیتھک طریق علاج کے برعکس طب یونانی کسی مرض کیلئے دواساز ادارے کی سربند دوائی دینے کا نام نہیں۔دواساز اداروں کی ترقی طب کی ترقی ہرگز نہیںہے ۔ہر اچھا طبیب دواسازی کے فن پر بھی عبور رکھتا ہے لہذا طبیب کی ذاتی دواسازی پر قدغن لگانے کیلئے ملکی دواساز اداروںاور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ایماء پر ڈرگ ایکٹ 1976ء کوبھی طب یونانی 'آیورویدک 'ہومیوپیتھک اور دیگر غیر ایلوپیتھک میڈیسن ایکٹ 2005ء کے ہمراہ لاگوکرنے کی کوششیں کی گئیں جسے کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان سمیت دیگر تنظیموںاور ملک بھر کے اطباء نے ناکام بنایا۔
اس وقت جبکہ فیڈرل ہیلتھ ٹاسک فورس اور دیگر ادارے و متعلقہ افرادنیشنل ہیلتھ پالیسی کی تشکیل اور اس کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دے رہے ہیں 'انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قومی صحت پالیسی کے ثمرات پاکستانی عوام خصوصاً دیہاتی آبادی کو تبھی پہنچ سکیں گے جب نیشنل ہیلتھ پالیسی میں طب یونانی کو بھی شامل کیا جائے گا حکومت سے اپیل ہے کہ طب یونانی طریقہ علاج کو سرکاری سرپرستی میں ترقی دینے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ طب یونانی اور اس کی صنعت دواسازی کو فروغ دیا جائے اس سے پاکستان اپنا قومی مسئلہ صحت حل کرنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔
طب یونانی(اسلامی) کا زوال ایک بہت بڑی سازش ہے۔جس میںبیوروکریسی کے ساتھ ساتھ'' سامراج'' اصل رکاوٹ ہے۔اگر موجودہ حکومت نے اس سلسلے میںخود انحصاری کی راہ نہ اپنائی اور اپنے اس ورثہ کی حفاظت نہ کی تو بعید نہیں کہ آئندہ آنے والے وقت میں پاکستانیوں کو ہربل (یونانی )میڈیسنزبھی ''بائر''یا کسی اور ملٹی نیشنل کمپنی کی بنی ہوئی خریدنی پڑیں ۔
لہٰذا اس سلسلے میں حکومت طب یونانی اور صنعت طبی دواسازی کی سرپرستی کرے اور اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون ''طب یونانی'آریوویدک' ہومیوپیتھک'ہربل اور نان ایلوپیتھک میڈیسن بل '' جوکہ پارلیمنٹ میںقانون سازی کا منتظرہے' میں جوترامیم اور تنسیخ عوامی مفاد نیز صنعت طبی دواسازی کے مفاد میں اطبائے پاکستان اور دیگر طبی تنظیموں نے پیش کی ہیں انہیں اس مسودہ میں شامل کیا جائے تاکہ یہ قانون سہل اور قابل ِعمل بن جائے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔# #

٭…٭…٭
یہی مضمون نوائے وقت سنڈے میگزین میں ملاحظہ فرمانے کےلیےکلک کیجئے
٭…٭…٭
 

زبیر مرزا

محفلین
مغربی ممالک میں بھی ہربل میڈیسن کو مقبولیت عام مل رہی ہے اور لوگ اس طریقہ علاج کو ترجیح دے رہے ہیں
 
Top