دنیا سمجھ رہی ہے حقیقت شناس ہوں

میں رُوحِ بے ضمیر ہوں اور بے لباس ہوں
دنیا سمجھ رہی ہے حقیقت شناس ہوں
محدود میری ذات کے محور میں میری سوچ
بیدار و ہوشیار، بقید ِحواس ہوں!
میں نے فصیلِ جاہ پہ ڈالی سدا کمند
ہر پُرکشش مقام کے میں آس پاس ہوں
یہ کیا کہ مال و زر کا لہو منہ کو آ لگا
پروردہِ ہوس ہوں میں دوزخ کی پیاس ہوں
رومال رکھ کے ناک پر آتے ہیں لوگ پاس
میں ایک زندہ لاش کے مدفن کی باس ہوں
مجھ پر وفا کا بوجھ نہ ڈال اے مرے وطن
میں سنگ ِ بے حسی کا بت ِبے اساس ہوں
ماضی کا کوئی فخر نہ فردا کا عزم خاص
میں نسل نو کی ناقص و بیکار آس ہوں
مجھ کو کسی غریب گھرانے کی فکر کیا
میں صرف اپنے گھر کے لئے خوش قیاس ہوں
ہمسر ہے کوئی میرا نہ ہے ہموطن کوئی
میں ایک خاندان ہوں اور اک کلاس ہوں
ساغر مجھے خدا کا کوئی واسطہ نہ دے
میں کفر کا اسیر ہوں بھگوان داس ہوں
شاعر۔۔۔۔۔ریاض الرحمن ساغر۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میں رُوحِ بے ضمیر ہوں اور بے لباس ہوں
دنیا سمجھ رہی ہے حقیقت شناس ہوں

محدود میری ذات کے محور میں میری سوچ
بیدار و ہوشیار، بقید ِحواس ہوں!

ساغر مجھے خدا کا کوئی واسطہ نہ دے
میں کفر کا اسیر ہوں بھگوان داس ہوں

یہ تین اشعار بہت خوب ہیں
 
Top