دنیا میں کوئی ہمارا بھی تو اپنا ہوتا

احمد بلال

محفلین
میں ایک دو دن میں نیٹ کی سہولت سے محروم ہو رہا ہوں۔ پھر کہیں شاذ و ناذر ہی ملاقات ہو سکے گی۔ جاتے جاتے میں اپنا ایک کلام پوسٹ کر رہا ہوں۔ مطلع میں ہی قافیہ نہیں بن پایا۔ بہت سوچا مگر کچھ نہ سوجھا۔ اس لیے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں کہ جاتے جاتے اساتذہ کا یہ فائدہ تو اٹھا لوں۔

دنیا میں کوئی ہمارا بھی تو اپنا ہوتا
واقفِ حالِ دلِ بسملِ زنداں ہوتا

زندگی جب غم و اندوہ میں یوں کٹنی تھی
کاش پھر دل بھی تو پتھر کا بنایا ہوتا

لُوٹنے والے بہت فصلِ بہاراں کے ہیں
کوئی تو اس چمنستاں کا خدارا ہوتا

نوکِ مژگاں سے گرا اشکِ پریشاں آخر
ورنہ آئینہء بے مہریء دنیا ہوتا

ملتیں مٹ کے فسانوں میں بدل جاتی ہیں
ہم نہ ہوتے تو ہمارا بھی فسانا ہوتا

حسنِ فطرت تو ہے جوبن پہ سدا سے احمد
لطف ہوتا جو کوئی دیکھنے والا ہوتا

الف عین صاحب، محمد وارث بھائی، فاتح بھائی، مہدی نقوی حجاز صاحب، فرخ منظور صاحب، ابن سعید بھائی، خلیل الرحمن صاحب، مقدس صاحبہ، مزمل شیخ بسمل بھائی، عزیزم محمد بلال اعظم ، محمد اظہر نذیر ، ملک عدنان احمد ، اسلام الدین اسلام ، شاہد شاہنواز ، اسد قریشی ،
 
بھائی کہاں چلے آپ؟؟:( اصلاح سخن میں سنجیدہ افراد کا تو فقدان پایا جاتا ہے۔ اور آپ بھی۔ خیریت؟ خیر فون تو آن رہے گا نا؟
اچھا کچھ فوری مشورے ذہن میں آئے ہیں۔ اوقات تو اتنی نہیں مگر پھر بھی دیکھ لیں اگر پسند آئیں تو

واقفِ حال بھی کوئی ذوالقربیٰ ہوتا

واقفِ حالِ دلِ بسملِ زنداں
اتنی لمبی چوڑی ترکیب شعر کی روانی کو مجروح بھی کرتی ہے اور فصحا منع فرماتے ہیں۔ بلکہ اساتذہ نے توالی اضافات تک اجازت دی ہے۔ یعنی حد ہے کہ تین اضافات کی ترتیب بنا سکتے ہیں۔ اور بہر حال یہ اصول کوئی ایسا نہیں کہ طبیعت پر گراں گزرے۔
دوسرے شعر میں دوسرا مصرع :
زندگی جب غم و اندوہ میں یوں کٹنی تھی​
کاش پھر دل بھی تو پتھر کا بنایا ہوتا​
”کاش“ پھر دل بھی ”تو“ پتھر کا بنایا ہوتا
کاش اور تو کا کام مصرعے میں ایک ہی معلوم ہوتا ہے۔ حالتِ نثر میں اگر یوں ہو:
کاش دل بھی پتھر کا بنایا ہوتا
یا
دل بھی تو پتھر کا بنایا ہوتا پھر۔

کاش اور تو کا جمع ہوجانا زیادہ اچھا نہیں لگ رہا۔ تو کو حذف کرمصرع زیادہ بہتر ہے میری ذاتی رائے میں:
÷÷کاش دل بھی مرا پتھر سے بنایا ہوتا

ملتیں× مٹ کے فسانوں میں بدل جاتی ہیں​
ہم نہ ہوتے تو ہمارا بھی فسانا ہوتا​

ملتیں مٹنے کا تصور سمجھ نہ آسکا اور پھر فسانا؟؟؟
پھر اس لحاظ سے صیغہ بھی درست نہیں کیونکہ ملتیں تو مٹ کر فسانوں میں بدلتی ہیں اور ہم اگر وجود میں ہوتے ہی نہیں تو فسانا ہوتے
یہاں پہلے مصرعے کے لحاظ سے تو ایسا ہونا چاہئے تھا:
÷÷ہم نہ ہونگے تو ہمارا بھی فسانا ہوگا یا ہم بھی فسانا ہونگے وغیرہ
پہلا مصرع تبدیلی چاہتا ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بھائی
واقفِ حال بھی کوئی ذوالقربیٰ ہوتا

واقفِ حالِ دلِ بسملِ زنداں
اتنی لمبی چوڑی ترکیب شعر کی روانی کو مجروح بھی کرتی ہے اور فصحا منع فرماتے ہیں۔ بلکہ اساتذہ نے توالی اضافات تک اجازت دی ہے۔ یعنی حد ہے کہ تین اضافات کی ترتیب بنا سکتے ہیں۔ اور بہر حال یہ اصول کوئی ایسا نہیں کہ طبیعت پر گراں گزرے۔
اچھا ہوا بتا دیا ورنہ میں تو اسے خوبی سمجھنے لگا تھا اور عنقریب میری شاعری اردو سے فارسی کی طرف راغب ہونے والی تھی۔۔۔
لیے دل میں خواہش ِ حسرتِ دلِ بے قرار گزر گئے۔۔۔
کبھی مسکرائے تپاک سے، کبھی سوگوار گزر گئے۔۔۔
تو یہ خوبی نہیں ، خامی ہے، لیکن جو ہوگیا سو ہوگیا۔ آئندہ خیال رکھیں گے۔۔۔
اور بھائی احمد بلال ۔۔۔ آپ کو جاتے ہوئے دیکھ کرمیں صرف اتنا کہوں گا کہ واپسی ہوگی اور ضرور ہوگی کیونکہ جسے شاعری سے عشق ہو وہ محفل سے زیادہ دیر دور نہیں رہ سکتا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
لمبہی ترکیبوں پر مجھے کم از کم کوئی اعتراض نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ یہاں بدلنے کی ضرورت ہی ہے کہ زنداں تو کسی طرح فٹ نہں ہوتا۔ ہندی والے بلکہ مشاعرے کے کچھ شعراء ’کرام‘ بھی ان قوافی میں ’آسماں اور جہاں ملا دیتے ہیں، جو بہر حال غلط ہے۔ لین اس کی جگہ عربی بھی ٹھونسنا پسند نہین جیسا بسمل نے مشورہ دیا ہے۔ باقی مشوروں سے میں متفق ہوں
 
Top