مدیحہ گیلانی
محفلین
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہر چند کہ ہوں ہوش میں، ہشیار نہیں ہوں
اس خانۂ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث
سایہ ہوں فقط ، نقش بہ دیوار نہیں ہوں
وہ گُل ہوں، خزاں نے جسے برباد کیا ہے
الجھوں کسی دامن سے، میں وہ خار نہیں ہوں
یارب! مجھے محفوظ رکھ اُس بُت کے ستم سے
میں اُس کی عنایت کا طلبگار نہیں ہوں
گو دعویِ تقویٰ نہیں درگاہِ خدا میں
بُت جس سے ہوں خوش ایسا گنہ گار نہیں ہوں
افسردگی و ضعف کی کچھ حد نہیں اکبرؔ
کافر کے مقابل میں بھی دِیں دار نہیں ہوں
اکبر الہ آبادی
ڈاکٹر صادق فطرت ناشناس نے یہ غزل کمال خوبصورتی سے گائی ہے مگر افسوس کہ میرے پاس آڈیو اپلوڈ کرنے کی سہولت موجود نہیں۔