ایم اسلم اوڈ
محفلین
ہم نے یہ ایک عجیب غلط فہمی قائم کر لی ہے کہ پاکستان دنیا کا کوئی ایسا انوکھا ملک ہے جہاں ہولناک کرپشن ہے، جرائم پیشہ سیاست دان ہیں، ڈوبتی معیشت ہے اور ٹوٹا ہوا ریاستی ڈھانچہ ہے۔ ہم نے کسی طوطے کی طرح یہ رٹ لیا ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ ہی زوال پذیر ہے جبکہ باقی پوری دنیا تو چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں وہاں قانون کی بالادستی قائم ہے۔عام آدمی بازار میں سونا اچھالتا گزر جاتا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ آنکھ اٹھا کے دیکھے، لوگ دکانوں کو تالے لگائے بغیر بے فکری سے لمبی تان کے سو جاتے ہیں، ان کی نیند کے دوران اگر کوئی گاہک آ جائے تو وہ خود ہی چیز خرید کر پیسے مالک کے گلے میں ڈال کر چلا جاتا ہے۔ کوئی سڑک پر سوتا ہے نہ کسی کا بچہ بھوک سے مرتا ہے۔ ہر ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج ہے، وہاں کا ہر اسٹوڈنٹ آئن سٹائن اور نیوٹن بن کر نکلتا ہے۔ سرکاری دفاتر میں سائل کا مسئلہ چٹکی بجاتے حل کر دیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں ناکام ریاستوں کی عالمی درجہ بندی کا بھی شدت سے انتظار رہتا ہے کیونکہ اس نام نہاد درجہ بندی میں پاکستان ٹاپ ٹین کے آس پاس فال کرتا ہے۔ اس اشاریئے سے ہمیں اپنے موقف کے حق میں ایک اور دلیل مل جاتی ہے اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ پاکستان تو فیل ہو گیا لیکن ہم پاس ہو گئے!
حقیقت خاصی دلچسپ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں پاکستان کا موازنہ اپنے ہمسایوں سے کرنا چاہئے نہ کہ امریکہ اور یورپ سے کیونکہ جو شخص کچی آبادی میں رہتا ہو وہ اپنے ساتھ والی جھونپڑی سے مقابلہ کرے گا نہ کہ ڈیفنس کے خواب دیکھے گا۔ اس لئے امریکہ اور یورپ کی مثالیں رہنے دیں تاکہ ہم اتنا ضرور کہہ سکیں کہ وہاں بھی ملٹی نیشنلز کی بدمعاشیوں سے لے کر بچوں سے زیادتی تک اور آزادی کے نام پر عورتوں کی تذلیل سے لے کر کنزیومر فراڈ تک ہر قسم کا اعلیٰ پائے کا جرم ہوتا ہے، ہمیں نہ جانے کیوں یہ ’’خوش فہمی‘‘ ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔
انڈیا کی بات کرتے ہیں۔ ہم انڈیا کو صرف اس کی فلموں کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ جس ممبئی میں یہ فلمیں بنتی ہیں وہاں کی طوائفوں کی مفلسی کا یہ حال ہے کہ وہ جسم کے بعد اب اپنے ہونے والے بچے بھی بیچ رہی ہیں تاکہ اس ’’ایڈوانس‘‘ سے اپنے لئے روٹی خرید سکیں۔ شاید کسی نے انہیں مدرز ڈے کی افادیت کے بارے میں نہیں بتایا! اسی ممبئی میں دنیا کی سب سے بڑا slum ہے جبکہ دلی میں اڑھائی لاکھ لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، پاکستان میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو لوگ بھارت کی معیشت اور اداروں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں ریاستی عملداری کا یہ حال ہے کہ 10 ریاستوں کے 182 اضلاع میں مائو باغی سرگرم ہیں اور بھارت کے جنگلات کے پانچویں حصے پر ان کا قبضہ ہے، دیگر علاقوں میں چلنے والی آزادی کی تحاریک اس کے علاوہ ہیں۔ بھارت میں 41.6 فیصد لوگ (50 کروڑ زندہ انسان) خط غربت سے نیچے محض سوا ڈالر فی دن کے حساب سے زندہ ہیں اور رہی یہ دلیل کہ پچھلی دہائیوں میں بھارت اور چین میں خط غربت سے نکلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو Global Hunger Index کی رپورٹ کے مطابق انڈیا ان تین ملکوں میں سے ایک ہے جہاں 1996ء سے 2011ء کے دوران یہ اشاریہ 22.9 سے 23.7 تک بڑھ گیا جبکہ پاکستان نے اس دوران بہتری دکھائی۔ بھارتی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی شائننگ انڈیا میں 16 لاکھ ایڈز کے مریض ہیں۔
ہمارے جو سیکولر دوست اس بات پر بھنگڑے ڈالتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کا حال پاکستان سے بہتر ہے انہیں چاہئے کہ مشہور زمانہ ’’سچر رپورٹ‘‘ ایک مرتبہ دوبارہ پڑھ لیں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ محض اقلیتی صدر لگا دینے سے حقائق کی پردہ پوشی نہیں ہو سکتی۔ ریاستی سطح پر گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے قابل فخر کارنامے تو انڈیا کے ماتھے کا جھومر ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی ’’دلچسپ‘‘ ہے کہ مسلمانوں کی حالت زار دیگر اقلیتوں سے بھی گئی گزری ہے، بھارتی سول سروس میں ان کا حصہ فقط 3 فیصد ہے۔ ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے ٹی وی پر صرف شاہ رخ خان یا سیف علی خان ایسے ’’مسلمان‘‘ نظر آتے ہیں جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے گھروں میں مورتیوں کی پوجا نہ ہو تو بال ٹھاکرے خود ان کی مزاج پرسی کرے (جنہیں یقین نہ ہو وہ شاہ رخ خان کی زندگی پر بنی فلم دیکھ لے)۔ بھارتی ریاست اتر پردیش جس کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے، کی اسمبلی کے 403 ارکان میں سے 189 کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں اور یہی حال پوری بھارتی پارلیمنٹ کا ہے۔ وہاں کے کرپشن سیکنڈل، ٹیلی کام اور بوفورس، دیگ کے دو ایسے دانے ہیں جن پر پاکستانی بھائی فقط رشک ہی کر سکتے ہیں۔
آج کل ہمیں بنگلہ دیش کی ترقی پر بھی بڑا پیار آیا ہوا ہے، ذرا اس کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ ڈھاکہ شہر میں 6 لاکھ سائیکل رکشہ ہیں جسے دو پسلی والا غریب بنگالی ایک دھوتی اور بنیان پہن کر چلاتا ہے اور 4 آدمیوں کا وزن ڈھوتا ہے۔ وہاں ٹریفک، سائیکل رکشا کی وجہ سے بلاک ہوتا ہے اور ہمارے ہاں گاڑیوں کی وجہ سے۔ بنگلہ دیش کا کل بجٹ پاکستان سے آدھا بھی نہیں، وہاں بجلی کی مانگ 6000 میگا واٹ اور پیداوار 4000 میگا واٹ جبکہ ہماری مانگ 16,000 میگا واٹ سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں تیل کی مانگ ایک لاکھ بیرل یومیہ جبکہ پاکستان میں 4.25 لاکھ بیرل روزانہ۔ ہم یہاں لیپ ٹاپ مفت بانٹ رہے ہیں اور بنگالی بھائی سائیکل رکشے میں جتے ہوئے ہیں۔
ناکام ریاستوں کے اشاریے کا لطیفہ بھی سن لیں۔ جن ممالک کو پاکستان کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے ان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور وہاں ریاستی عملداری نام کی کوئی چیز نہیں جیسے کہ صومالیہ، چاڈ، سوڈان، ڈی آر کونگو، ہیٹی، زمبابوے وغیرہ۔ اگر پاکستان کو کراچی یا بلوچستان کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے تو عرض ہے کہ ان دو ٹکے کے ملکوں میں تو کراچی جیسا جدید اور میٹروپولیٹن شہر تو دور کی بات سیالکوٹ کے پائے کا بھی کوئی شہر نہیں۔ حد یہ ہے کہ اس اشاریئے میں پاکستان کا مقام یمن، نائیجریا، برما، ایتھوپیا، یوگنڈا، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی گیا گزرا دکھایا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا میڈیا، عدلیہ اور سول انتظامیہ کا تانا بانا ان ممالک کے مقابلے میں قابل رشک ہے۔
(حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ہم امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ اور اس کی جبری دوستی میں نہ پڑتے تو ہمارا حال کہیں بہتر ہوتا لیکن اب بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں فکر کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ )
(ادارہ)
(اقتباسات ،بشکریہ روزنامہ جنگ)
بشکریہ ۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام ،،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
حقیقت خاصی دلچسپ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں پاکستان کا موازنہ اپنے ہمسایوں سے کرنا چاہئے نہ کہ امریکہ اور یورپ سے کیونکہ جو شخص کچی آبادی میں رہتا ہو وہ اپنے ساتھ والی جھونپڑی سے مقابلہ کرے گا نہ کہ ڈیفنس کے خواب دیکھے گا۔ اس لئے امریکہ اور یورپ کی مثالیں رہنے دیں تاکہ ہم اتنا ضرور کہہ سکیں کہ وہاں بھی ملٹی نیشنلز کی بدمعاشیوں سے لے کر بچوں سے زیادتی تک اور آزادی کے نام پر عورتوں کی تذلیل سے لے کر کنزیومر فراڈ تک ہر قسم کا اعلیٰ پائے کا جرم ہوتا ہے، ہمیں نہ جانے کیوں یہ ’’خوش فہمی‘‘ ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔
انڈیا کی بات کرتے ہیں۔ ہم انڈیا کو صرف اس کی فلموں کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ جس ممبئی میں یہ فلمیں بنتی ہیں وہاں کی طوائفوں کی مفلسی کا یہ حال ہے کہ وہ جسم کے بعد اب اپنے ہونے والے بچے بھی بیچ رہی ہیں تاکہ اس ’’ایڈوانس‘‘ سے اپنے لئے روٹی خرید سکیں۔ شاید کسی نے انہیں مدرز ڈے کی افادیت کے بارے میں نہیں بتایا! اسی ممبئی میں دنیا کی سب سے بڑا slum ہے جبکہ دلی میں اڑھائی لاکھ لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، پاکستان میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو لوگ بھارت کی معیشت اور اداروں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت میں ریاستی عملداری کا یہ حال ہے کہ 10 ریاستوں کے 182 اضلاع میں مائو باغی سرگرم ہیں اور بھارت کے جنگلات کے پانچویں حصے پر ان کا قبضہ ہے، دیگر علاقوں میں چلنے والی آزادی کی تحاریک اس کے علاوہ ہیں۔ بھارت میں 41.6 فیصد لوگ (50 کروڑ زندہ انسان) خط غربت سے نیچے محض سوا ڈالر فی دن کے حساب سے زندہ ہیں اور رہی یہ دلیل کہ پچھلی دہائیوں میں بھارت اور چین میں خط غربت سے نکلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو Global Hunger Index کی رپورٹ کے مطابق انڈیا ان تین ملکوں میں سے ایک ہے جہاں 1996ء سے 2011ء کے دوران یہ اشاریہ 22.9 سے 23.7 تک بڑھ گیا جبکہ پاکستان نے اس دوران بہتری دکھائی۔ بھارتی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی شائننگ انڈیا میں 16 لاکھ ایڈز کے مریض ہیں۔
ہمارے جو سیکولر دوست اس بات پر بھنگڑے ڈالتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کا حال پاکستان سے بہتر ہے انہیں چاہئے کہ مشہور زمانہ ’’سچر رپورٹ‘‘ ایک مرتبہ دوبارہ پڑھ لیں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ محض اقلیتی صدر لگا دینے سے حقائق کی پردہ پوشی نہیں ہو سکتی۔ ریاستی سطح پر گجرات اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے قابل فخر کارنامے تو انڈیا کے ماتھے کا جھومر ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی ’’دلچسپ‘‘ ہے کہ مسلمانوں کی حالت زار دیگر اقلیتوں سے بھی گئی گزری ہے، بھارتی سول سروس میں ان کا حصہ فقط 3 فیصد ہے۔ ہمیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے ٹی وی پر صرف شاہ رخ خان یا سیف علی خان ایسے ’’مسلمان‘‘ نظر آتے ہیں جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے گھروں میں مورتیوں کی پوجا نہ ہو تو بال ٹھاکرے خود ان کی مزاج پرسی کرے (جنہیں یقین نہ ہو وہ شاہ رخ خان کی زندگی پر بنی فلم دیکھ لے)۔ بھارتی ریاست اتر پردیش جس کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے، کی اسمبلی کے 403 ارکان میں سے 189 کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں اور یہی حال پوری بھارتی پارلیمنٹ کا ہے۔ وہاں کے کرپشن سیکنڈل، ٹیلی کام اور بوفورس، دیگ کے دو ایسے دانے ہیں جن پر پاکستانی بھائی فقط رشک ہی کر سکتے ہیں۔
آج کل ہمیں بنگلہ دیش کی ترقی پر بھی بڑا پیار آیا ہوا ہے، ذرا اس کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ ڈھاکہ شہر میں 6 لاکھ سائیکل رکشہ ہیں جسے دو پسلی والا غریب بنگالی ایک دھوتی اور بنیان پہن کر چلاتا ہے اور 4 آدمیوں کا وزن ڈھوتا ہے۔ وہاں ٹریفک، سائیکل رکشا کی وجہ سے بلاک ہوتا ہے اور ہمارے ہاں گاڑیوں کی وجہ سے۔ بنگلہ دیش کا کل بجٹ پاکستان سے آدھا بھی نہیں، وہاں بجلی کی مانگ 6000 میگا واٹ اور پیداوار 4000 میگا واٹ جبکہ ہماری مانگ 16,000 میگا واٹ سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں تیل کی مانگ ایک لاکھ بیرل یومیہ جبکہ پاکستان میں 4.25 لاکھ بیرل روزانہ۔ ہم یہاں لیپ ٹاپ مفت بانٹ رہے ہیں اور بنگالی بھائی سائیکل رکشے میں جتے ہوئے ہیں۔
ناکام ریاستوں کے اشاریے کا لطیفہ بھی سن لیں۔ جن ممالک کو پاکستان کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے ان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور وہاں ریاستی عملداری نام کی کوئی چیز نہیں جیسے کہ صومالیہ، چاڈ، سوڈان، ڈی آر کونگو، ہیٹی، زمبابوے وغیرہ۔ اگر پاکستان کو کراچی یا بلوچستان کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے تو عرض ہے کہ ان دو ٹکے کے ملکوں میں تو کراچی جیسا جدید اور میٹروپولیٹن شہر تو دور کی بات سیالکوٹ کے پائے کا بھی کوئی شہر نہیں۔ حد یہ ہے کہ اس اشاریئے میں پاکستان کا مقام یمن، نائیجریا، برما، ایتھوپیا، یوگنڈا، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی گیا گزرا دکھایا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا میڈیا، عدلیہ اور سول انتظامیہ کا تانا بانا ان ممالک کے مقابلے میں قابل رشک ہے۔
(حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ہم امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ اور اس کی جبری دوستی میں نہ پڑتے تو ہمارا حال کہیں بہتر ہوتا لیکن اب بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں فکر کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ )
(ادارہ)
(اقتباسات ،بشکریہ روزنامہ جنگ)
بشکریہ ۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام ،،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput