حمیرا عدنان
محفلین
ریاض سعودی عرب کا دارالحکومت ہے جس کی آبادی 60 لاکھ سے زائد ہے مگر ابھی وہاں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں، تاہم اس میں تبدیلی آنے والی ہے۔
2018 کے اختتام تک اس سعودی شہر میں دنیا کا سب سے بڑا اربن ماس ٹرانزٹ سسٹم کام کرنے لگے گا۔
یہ ٹرانسپورٹ سسٹم جو اس وقت زیرتعمیر ہے، اس میں 6 میٹرو لائنز شامل ہیں جو 85 اسٹیشنز کو ایک دوسرے سے منسلک کریں گی اور ان پر بچھائی جانے والی پٹریاں 110 میل تک پھیلی ہوں گی۔
میٹرو کے ساتھ ساتھ ایک نیا بس سسٹم بھی تیار کیا جارہا ہے۔
سعودی حکام نے 2012 میں اس منصوبے کی منظوری دی تھی جس کی وجہ 2035 تک آبادی میں 50 فیصد اضافے کا امکان تھا۔
اس اربن سسٹم کی تعمیر کے لیے سعودی حکومت نے دنیا بھر کی کئی کمپنیوں سے معاہدے کیے جن میں سب سے بڑا 10 ارب ڈالرز کا معاہدہ امریکی کمپنی بیچ ٹیل سے کیا گیا۔
اس سسٹم کی تعمیر کے لیے یہ کمپنی 1 ہزار ٹن وزنی ٹنل بورنگ مشینوں کو استعمال کررہی ہے جنھیں سعودی عرب کے بانی فرمانروا کے گھوڑے کا نام دیا گیا ہے۔
ہر مشین ہر ہفتے 325 فٹ تک کھدائی کرنے اور انہیں کنکریٹ کے پینلز سے بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ان سرنگوں میں چلنے والی ٹرینوں کی تیاری کا کام سیمنز کمپنی کررہی ہے جو خودکار اور بغیر ڈرائیور کے 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکیں گی۔
ہر ٹرین مکمل طور پر ائیرکنڈیشنڈ ہوگی جبکہ تمام اسٹیشنز پر وائی فئای کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔
پورے منصوبے کی 20 فیصد توانائی کی ضروریات شمسی توانائی سے پوری کی جائیں گیں۔
ماخذ
2018 کے اختتام تک اس سعودی شہر میں دنیا کا سب سے بڑا اربن ماس ٹرانزٹ سسٹم کام کرنے لگے گا۔
یہ ٹرانسپورٹ سسٹم جو اس وقت زیرتعمیر ہے، اس میں 6 میٹرو لائنز شامل ہیں جو 85 اسٹیشنز کو ایک دوسرے سے منسلک کریں گی اور ان پر بچھائی جانے والی پٹریاں 110 میل تک پھیلی ہوں گی۔
میٹرو کے ساتھ ساتھ ایک نیا بس سسٹم بھی تیار کیا جارہا ہے۔
سعودی حکام نے 2012 میں اس منصوبے کی منظوری دی تھی جس کی وجہ 2035 تک آبادی میں 50 فیصد اضافے کا امکان تھا۔
اس اربن سسٹم کی تعمیر کے لیے سعودی حکومت نے دنیا بھر کی کئی کمپنیوں سے معاہدے کیے جن میں سب سے بڑا 10 ارب ڈالرز کا معاہدہ امریکی کمپنی بیچ ٹیل سے کیا گیا۔
اس سسٹم کی تعمیر کے لیے یہ کمپنی 1 ہزار ٹن وزنی ٹنل بورنگ مشینوں کو استعمال کررہی ہے جنھیں سعودی عرب کے بانی فرمانروا کے گھوڑے کا نام دیا گیا ہے۔
ہر مشین ہر ہفتے 325 فٹ تک کھدائی کرنے اور انہیں کنکریٹ کے پینلز سے بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ان سرنگوں میں چلنے والی ٹرینوں کی تیاری کا کام سیمنز کمپنی کررہی ہے جو خودکار اور بغیر ڈرائیور کے 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکیں گی۔
ہر ٹرین مکمل طور پر ائیرکنڈیشنڈ ہوگی جبکہ تمام اسٹیشنز پر وائی فئای کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔
پورے منصوبے کی 20 فیصد توانائی کی ضروریات شمسی توانائی سے پوری کی جائیں گیں۔
ماخذ