ساقی۔
محفلین
گزشتہ پانچ برسوں میں ننھے سائنس دان نے سات قسم کی ناقابل یقین ایجادات کرکے دنیائے سائنس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
ننھے ادیب سلیمان البلوشی کی عمر، تعلیم اور تجربہ کسی شمار قطار میں نہیں، کیونکہ اس کی عمر فقط دس سال ہے اور وہ متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی کے ایک متوسط صلاحیت کے حامل ’’جیمز ویلنگٹن انٹرنیشنل اسکول‘‘ میں چھٹی جماعت کا طالب علم ہے۔
ادیب کی یہ مختصر زندگی اور بچپن اپنی جگہ مگر اس نے بڑی بڑی عالمی درسگاہوں کے فضلاء، سائنسدانوں اور عصر حاضر کے موجدوں کو بھی مات دے دی ہے۔ادیب جیسا با صلاحیت انسان کروڑوں میں کہیں ایک ملتا ہے جو اپنی دماغی صلاحیتیں کھیل کود جیسے بے مصرف کاموں میں کھپانے کے بجائے کچھ کرنے اور کر گزرنے کا جذبہ اور ہمت رکھتے ہیں۔
ادیب البلوشی دور ِحاضر کے صر ف بچوں کے ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے ایک مشعل راہ، مایوسوں کے لیے امید کی کرن اور ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے والوں کے لیے ایک چلتا پھرتا پیغام انقلاب ہے۔ یہ درست ہے کہ البلوشی کو قدرت نے بے پناہ خدادا د صلاحیتوں سے نوازا ہے جو ہرایک کے مقدر میں نہیں لیکن اس نے اپنی ان پوشیدہ صلاحیتوں کو پانے کے بعد اُنہیں ضائع جانے سے بچانے کے لیے جو کارنامہ انجام دیا اسے دور حاضر کا عدیم النظیر واقعہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ننھے ادیب سلیمان البلوشی کے والد السید سلیمان محمد اسماعیل البلوشی غریب ہونے کے ساتھ ساتھ پولیو کے مریض ہیں۔ بیماری اور غربت جب ایک ساتھ ہوں تو انسان کے حواس کھو جاتے اور قویٰ جواب دینے لگتے ہیں۔ سلیمان اسماعیل البلوشی نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسی کشمش میں گزارا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسا فرزند عطاء کیا جس نے محض چھ سال کی عمر میں متحدہ عرب امارات اور اس کے باہر عرب ممالک حتیٰ کہ عالمی شہرت حاصل کی۔ ننھے ادیب نے اپنے نیم شعوری دور میں اپنے والد کو معذور دیکھا۔ اس کے ذہن میں سوالات پیدا ہونے لگے۔ وہ والد کو لڑکھڑا کر چلتے اور بیساکھیوں کا سہارا لیتے دیکھتا تو خون کے آنسو رو کے رہ جاتا۔ وہ مسلسل سوچتا کاش کہ مَیں اپنے پولیو زدہ والد کا سہارا بنتا۔ اس کی اس دل گرفتی کو قدرت بھی دیکھ رہی تھی۔ آخر قدرت اس پرمہربان ہوئی اور اس کے ذہن میں مختلف آئیڈیاز آنے لگے۔ اس نے آئیڈیاز کو ذہن سے نکال کر کاغذ پر مرتسم کرنا اور پھر انہیں عملی شکل میں ڈھالنے کا فن سیکھا۔
پانچ سال کی عمر میں ادیب نے اپنے معذور والد کے لیے مصنوعی ٹانگ تیار کی۔ یہ مصنوعی ٹانگ نہیں بلکہ اس کے سائنسی ذہن کی سب سے پہلی اور منفرد ایجاد تھی جو کسی سائنسی لیبارٹری کی اختراع نہیں تھی۔ اس کے پیچھے بڑی بڑی لائبریریوں میں دن رات ایک کرنے والے محققین کی سوچ بھی نہیں تھی۔ یہ ایک ننھے ذہن کی ایجاد تھی، جو ابھی اسکول کی ابتدائی کلاسوں میں تھا، جسے ابھی تک تو صحیح طورپر بولنا بھی نہیں آیا تھا۔ یہ واٹر پروف مصنوعی ٹانگ صرف ایک سہارا نہیں بلکہ مریض والد کے لیے یہ واضح پیغام تھا کہ خدا نے اس کے نونہال کو دوسروں سے ممتاز رہ کر کچھ کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔
مصنوعی ٹانگ کی تیاری نے دبئی میں ایک ہلچل پیدا کردی۔ جب دبئی میونسپل کمیٹی کو اس کا علم ہوا تو حکومتی شخصیات نے ننھے ادیب سلیمان بلوشی کے حالات وخیالات معلوم کیے، تو معلوم ہوا کہ بچہ بے پناہ خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے، اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے۔گزشتہ پانچ برسوں میں ننھے سائنس دان نے سات قسم کی ناقابل یقین ایجادات کرکے دنیائے سائنس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کم عمری میںجب ادیب سلیمان البلوشی کا شہرہ دبئی سے نکل کر دوسرے ملکوں تک پہنچا تو عالمی ادارے، جامعات اور سائنسی ماہرین اسے ہاتھوں ہاتھ لینے کو لپکنے لگے۔
سب سے پہلے اسے جرمنی کی ایک’’سائنس و ثقافت فاؤنڈیشن‘‘ کی جانب سے جرمنی ہی میں مفت تعلیم کی پیشکش ہوئی۔ اس نے یہ کہہ کر وہ پیشکش ٹھکرادی کہ ’’میں امارات میں پیدا ہوں۔ یہی میرا وطن ہے، اسی مٹی نے مجھے یہ صلاحیتیں دی ہیں۔ اس لیے میرے اوپر وطن عزیز کی مٹی کا قرض ہے۔ میں اپنے نام اور کام کے ساتھ کسی دوسرے ملک کی نسبت گوارا نہیں کروں گا میں عالم اسلام کا سائنسدان بنوں گا۔ یہ اس ننھے سائنسدان کی حب الوطنی کی فقیدالمثال سوچ ہے۔
دبئی سے نشر ہونے والے سعودی ٹیلی ویژن ’’العربیہ‘‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ادیب کے کارناموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ادیب سلیمان البلوشی کو ’’امن کا سفیر‘‘ بچوں کی دنیا کا ’’ہیرو‘‘ جیسے القابات دے رکھے ہیں۔ ادیب کو عالمی اداروں کی جانب سے دیے جانے والے اعزازات کی تعداد بے شمار ہے۔ وہ اب تک کم سے کم 100 اعزازی ڈگریاں، بے شمار تمغے اور میڈل حاصل کرچکا ہے۔متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے اسے ’’بہترین تعلیمی ایوارڈ ’’ الشیخ حمدان بن راشد‘‘، اردن کی ۔’’روبوٹ سائنس آرگنائزیشن‘‘ ایوارڈ کے ساتھ ساتھ ادیب کو اس تنظیم کی رکنیت بھی دی گئی ہے۔
یہ تنظیم عرب ممالک کے ان نامورسائنس دانوں کو رکنیت دیتی ہے جو مختلف سائنسی شعبوں میں گراں قیمت خدمات انجام دیتے ہیں۔گزشتہ برس قاہرہ میں عرب لیگ کی جانب سے بھی ادیب سلیمان کو ’’عرب دنیا کا ننھا سائنس دان‘‘ کا ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔ اردن حکومت کی طرف سے’’شاہ حسین ایوارڈ‘‘ اور ’’عرب یوتھ ڈویلپمنٹ کونسل‘‘ کی جانب سے بھی ادیب کو خصوصی ایوارڈ دیے جا چکے ہیں۔
ننھے اماراتی سائنسدان کی ایجادات
اس کی پہلی قابل ذکر ایجاد اپنے معذور والد کے لیے مصنوعی واٹر پروف ٹانگوں کی تیاری تھی۔ ادیب کے والد اپنی دونوں ٹانگوں کو مصنوعی ٹانگوںکے اندر فِٹ کرکے نہ صرف بیساکھیوں سے زیادہ بہتر طریقے سے چل پھر سکتے ہیں بلکہ وہ ان مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ غوطہ خوری بھی کرسکتے ہیں۔ ننھے ذہن کی مہارت دیکھیے کہ ٹانگوں کو قدرتی انداز میں کنٹرول کرنے کے لیے انہیں برقی تاروں سے جوڑنے کے بعد ان تاروں کو ایک چھوٹے آلہ سماعت کے ساتھ کان سے مربوط کیا گیا۔ یہ آلہ سماعت برقی تاروں کے ذریعے مصنوعی پاؤں تک دماغ کا پیغام پہنچاتا ہے جس کے ذریعے انہیں تحریک دی جاتی ہے۔
کم سن اماراتی سائنس دان کی دوسری اہم ایجاد’’ویکیوم کلینر روبوٹ‘‘ کی تیاری ہے۔ یہ ایک نہایت چھوٹا روبوٹ ہے جو عام طور پر گھروں میں کام کاج بالخصوص صفائی کے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ روبوٹ گھر کے ان مقامات تک بھی باآسانی پہنچ جاتا ہے جہاں انسان کا پہنچنا یا صفائی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ادیب کی تیسری ایجاد جدید کیمروں سے لیس ہیلمٹ ہے۔ یہ ہیلمٹ ہنگامی امدادی اداروں کے رضاکاروں کے زیر استعمال ہوتا ہے۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس ہیلمٹ کو سر پررکھنے کے بعد آس پاس گرمی، سردی اور پانی کا احساس نہیں ہوپاتا۔ بالخصوص فائر بریگیڈ کے امدادی کارکنوں کے لیے یہ بہت کام کی شے ہے۔ اس پرلگے کیمرے براہ راست تصاویر اور ویڈیو آپریشن کنٹرول روم کو ارسال کرتے ہیں جن کی مدد سے آگ پرقابو پانے کے آپریشن کو مزید بہتر انداز میں آگے بڑھا یا جاسکتا ہے۔ نیز یہ ہیلمٹ دھوئیں، تاریکی اور رات کے اندھیرے میں روشنی بھی مہیا کرتا ہے۔
ادیب سلیمان کے والد سلیمان محمد اسماعیل نے اپنے بیٹے سے ایک دفعہ پوچھا کہ اگرکوئی شخص کار ڈرائیونگ کے دوران حادثے سے دوچار ہوجائے تو کیا تمہارے پاس اس حادثے کی فوری اطلاع دینے کے لیے کوئی آئیڈیا ہے، تو اس نے برجستہ جواب دیا ۔ہاں! بالکل ہے۔ وہ یہ کہ کار کی سیٹ بیلٹ کے ساتھ ایک چھوٹا ساآلہ لگے گا جو وائرلیس کے ذریعے متاثرہ شخص کے بارے میں فوری اطلاع اس کے اہلخانہ اور ایمرجنسی پولیس کو پہنچا سکے گا۔ بعد میںاس نے وہ آلہ بھی تیار کیا۔
حا ل ہی میں ادیب سلیمان نے دبئی میں اپنی ایجادات کے حوالے سے ایک پریزنٹیشن دی۔ سائنسی تحقیقات اور ایجادات کے بارے میں اس نے کہا کہ ’’میں ابھی بہت چھوٹا تھا جب میرے سامنے کوئی کھلونا آتاتو میں اسے تجسس کی نگاہ سے دیکھتا۔ جب تھوڑا بڑا ہوا تو میں کھلونوں سے کھیلنے کے بجائے انہیں کھول کردیکھتا کہ ان کے اندر کیا ہے اور یہ کیسے بنائے جاتے ہیں؟۔
میں اپنے گردو پیش کے ماحول کو دیکھتا اور ہرچیز کے بارے میں میرے ذہن میں سوالات اٹھتے، آسمان کو دیکھتا تو سوچتا رہ جاتا کہ اس کا رنگ نیلا کیوں ہے؟ نیچے گھاس پرنظر پڑتی تو فور ا خیال آتا کہ گھاس سبز کیوں ہوتا ہے؟۔پھر اپنی ذات کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے لیکن مجھے ہرسوال کا جواب حاصل کرنے کی فرصت نہیں ملی کیونکہ میں بعض سوالوں کے عملی جوابات کے حصول میں منہمک ہو گیا تھا۔ ادیب سلیمان کی ایجادات میں سے ایک ایجاد معذور بچوں کے لیے ریموٹ کنٹرو ل کی مدد سے چلنے والی ’’وہیل چیئر‘‘ بھی ہے۔ اس مخصوص وہیل چیئر کی تیاری کے بعد کئی بین الاقوامی فرموں نے اسے بھاری معاوضے کے بدلے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی۔
عالمی سائنسی ٹور
متحدہ عرب امارات کے ننھے ادیب کو پچھلے چار برسوں کے دوران کئی بار بیرون ملک دوروں کی دعوت مل چکی ہے۔ عرب ممالک، فرانس اور جرمنی میں مختلف سائنسی تحقیقاتی کانفرنسوں میں شرکت کرچکا ہے لیکن حال ہی میںاماراتی ولی عہد شہزادہ حمدان بن محمد بن راشد آل مکتوم کی جانب سے ادیب سلیمان بلوشی اور اس کے اہل خانہ کو سات ممالک کے سائنسی ’’ٹور‘‘ پر بھیجا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں ’’امارات انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ ادیب کے بین الاقوامی سائنسی مطالعاتی دورے کی نگرانی کر رہی ہے۔
ادیب نے اپنے غیرملکی دورے کا آغاز بیلجیم سے کیا ہے۔ اگلے مراحل میں وہ امریکا، فرانس، آئرلینڈ،اٹلی ، جرمنی اور برطانیہ میں مختلف کانفرنسوں میں شرکت کرے گا۔بیلجیم میں ’’گرین کاربن کانفرنس‘‘ کی طرف سے ادیب کو پہلے ہی دعوت مل چکی تھی۔ اپنے اس دورے میں وہ اس کانفرنس میں بھی شرکت کرے گا۔وہاں سے وہ فرانسیسی شہر ’’لافال‘‘ جائے گا جہاں وہ ایک بین الاقوامی کانفرنس ’’روبوٹ مشین برائے انسان‘‘ میں شرکت کرے گا۔ فرانس کے بعد وہ جرمنی کے شہر میونخ پہنچے گا ، وہاں سے امریکا کے شہر نیویارک میں دو الگ الگ کانفرنسوں میں شرکت کے بعد ریاست کیلیفورنیا میں امریکی خلائی تحقیقاتی ایجنسی’’ناسا‘‘ کے ہیڈ کواٹر کا دورہ کرے گا۔ وہاں سے برطانیہ اور آخر میں آئرلینڈسے ہوتے ہوئے یہ ننھا سائنسدان ایک ماہ بعد وطن واپس لوٹے گا۔
ادیب کے والد الشیخ سلیمان محمد اسماعیل البلوشی کا کہنا ہے کہ ادیب نے کم عمری ہی میں کھیل کود کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ اسے گھرمیں کوئی کھلونا دیا جاتا تو وہ اسے کھول کرجوڑنے کی مشق کیا کرتا، سب اس کی اس حرکت پر حیران ہوتے اور برا کہتے لیکن آج ہمیں اس کی حقیقت سمجھ آئی ہے۔ سلیمان محمد اسماعیل البلوشی کا کہنا تھا کہ میں اپنے بیٹے ادیب سے اس کی چھ سال کی عمرکو سامنے رکھتے ہوئے بات کرتا تو وہ مجھے میری پینتالیس سال کی عمر کے مطابق جواب دیتا۔ انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا آج جس مقام پر کھڑا ہے وہ دبئی حکومت اور ولی عہد الشیخ حمدان بن راشد آل مکتوم کی توجہ اور تعاون کا نتیجہ ہے۔
لنک
ننھے ادیب سلیمان البلوشی کی عمر، تعلیم اور تجربہ کسی شمار قطار میں نہیں، کیونکہ اس کی عمر فقط دس سال ہے اور وہ متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی کے ایک متوسط صلاحیت کے حامل ’’جیمز ویلنگٹن انٹرنیشنل اسکول‘‘ میں چھٹی جماعت کا طالب علم ہے۔
ادیب کی یہ مختصر زندگی اور بچپن اپنی جگہ مگر اس نے بڑی بڑی عالمی درسگاہوں کے فضلاء، سائنسدانوں اور عصر حاضر کے موجدوں کو بھی مات دے دی ہے۔ادیب جیسا با صلاحیت انسان کروڑوں میں کہیں ایک ملتا ہے جو اپنی دماغی صلاحیتیں کھیل کود جیسے بے مصرف کاموں میں کھپانے کے بجائے کچھ کرنے اور کر گزرنے کا جذبہ اور ہمت رکھتے ہیں۔
ادیب البلوشی دور ِحاضر کے صر ف بچوں کے ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے ایک مشعل راہ، مایوسوں کے لیے امید کی کرن اور ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے والوں کے لیے ایک چلتا پھرتا پیغام انقلاب ہے۔ یہ درست ہے کہ البلوشی کو قدرت نے بے پناہ خدادا د صلاحیتوں سے نوازا ہے جو ہرایک کے مقدر میں نہیں لیکن اس نے اپنی ان پوشیدہ صلاحیتوں کو پانے کے بعد اُنہیں ضائع جانے سے بچانے کے لیے جو کارنامہ انجام دیا اسے دور حاضر کا عدیم النظیر واقعہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ننھے ادیب سلیمان البلوشی کے والد السید سلیمان محمد اسماعیل البلوشی غریب ہونے کے ساتھ ساتھ پولیو کے مریض ہیں۔ بیماری اور غربت جب ایک ساتھ ہوں تو انسان کے حواس کھو جاتے اور قویٰ جواب دینے لگتے ہیں۔ سلیمان اسماعیل البلوشی نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اسی کشمش میں گزارا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسا فرزند عطاء کیا جس نے محض چھ سال کی عمر میں متحدہ عرب امارات اور اس کے باہر عرب ممالک حتیٰ کہ عالمی شہرت حاصل کی۔ ننھے ادیب نے اپنے نیم شعوری دور میں اپنے والد کو معذور دیکھا۔ اس کے ذہن میں سوالات پیدا ہونے لگے۔ وہ والد کو لڑکھڑا کر چلتے اور بیساکھیوں کا سہارا لیتے دیکھتا تو خون کے آنسو رو کے رہ جاتا۔ وہ مسلسل سوچتا کاش کہ مَیں اپنے پولیو زدہ والد کا سہارا بنتا۔ اس کی اس دل گرفتی کو قدرت بھی دیکھ رہی تھی۔ آخر قدرت اس پرمہربان ہوئی اور اس کے ذہن میں مختلف آئیڈیاز آنے لگے۔ اس نے آئیڈیاز کو ذہن سے نکال کر کاغذ پر مرتسم کرنا اور پھر انہیں عملی شکل میں ڈھالنے کا فن سیکھا۔
پانچ سال کی عمر میں ادیب نے اپنے معذور والد کے لیے مصنوعی ٹانگ تیار کی۔ یہ مصنوعی ٹانگ نہیں بلکہ اس کے سائنسی ذہن کی سب سے پہلی اور منفرد ایجاد تھی جو کسی سائنسی لیبارٹری کی اختراع نہیں تھی۔ اس کے پیچھے بڑی بڑی لائبریریوں میں دن رات ایک کرنے والے محققین کی سوچ بھی نہیں تھی۔ یہ ایک ننھے ذہن کی ایجاد تھی، جو ابھی اسکول کی ابتدائی کلاسوں میں تھا، جسے ابھی تک تو صحیح طورپر بولنا بھی نہیں آیا تھا۔ یہ واٹر پروف مصنوعی ٹانگ صرف ایک سہارا نہیں بلکہ مریض والد کے لیے یہ واضح پیغام تھا کہ خدا نے اس کے نونہال کو دوسروں سے ممتاز رہ کر کچھ کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔
مصنوعی ٹانگ کی تیاری نے دبئی میں ایک ہلچل پیدا کردی۔ جب دبئی میونسپل کمیٹی کو اس کا علم ہوا تو حکومتی شخصیات نے ننھے ادیب سلیمان بلوشی کے حالات وخیالات معلوم کیے، تو معلوم ہوا کہ بچہ بے پناہ خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے، اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے۔گزشتہ پانچ برسوں میں ننھے سائنس دان نے سات قسم کی ناقابل یقین ایجادات کرکے دنیائے سائنس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کم عمری میںجب ادیب سلیمان البلوشی کا شہرہ دبئی سے نکل کر دوسرے ملکوں تک پہنچا تو عالمی ادارے، جامعات اور سائنسی ماہرین اسے ہاتھوں ہاتھ لینے کو لپکنے لگے۔
سب سے پہلے اسے جرمنی کی ایک’’سائنس و ثقافت فاؤنڈیشن‘‘ کی جانب سے جرمنی ہی میں مفت تعلیم کی پیشکش ہوئی۔ اس نے یہ کہہ کر وہ پیشکش ٹھکرادی کہ ’’میں امارات میں پیدا ہوں۔ یہی میرا وطن ہے، اسی مٹی نے مجھے یہ صلاحیتیں دی ہیں۔ اس لیے میرے اوپر وطن عزیز کی مٹی کا قرض ہے۔ میں اپنے نام اور کام کے ساتھ کسی دوسرے ملک کی نسبت گوارا نہیں کروں گا میں عالم اسلام کا سائنسدان بنوں گا۔ یہ اس ننھے سائنسدان کی حب الوطنی کی فقیدالمثال سوچ ہے۔
دبئی سے نشر ہونے والے سعودی ٹیلی ویژن ’’العربیہ‘‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ادیب کے کارناموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ادیب سلیمان البلوشی کو ’’امن کا سفیر‘‘ بچوں کی دنیا کا ’’ہیرو‘‘ جیسے القابات دے رکھے ہیں۔ ادیب کو عالمی اداروں کی جانب سے دیے جانے والے اعزازات کی تعداد بے شمار ہے۔ وہ اب تک کم سے کم 100 اعزازی ڈگریاں، بے شمار تمغے اور میڈل حاصل کرچکا ہے۔متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے اسے ’’بہترین تعلیمی ایوارڈ ’’ الشیخ حمدان بن راشد‘‘، اردن کی ۔’’روبوٹ سائنس آرگنائزیشن‘‘ ایوارڈ کے ساتھ ساتھ ادیب کو اس تنظیم کی رکنیت بھی دی گئی ہے۔
یہ تنظیم عرب ممالک کے ان نامورسائنس دانوں کو رکنیت دیتی ہے جو مختلف سائنسی شعبوں میں گراں قیمت خدمات انجام دیتے ہیں۔گزشتہ برس قاہرہ میں عرب لیگ کی جانب سے بھی ادیب سلیمان کو ’’عرب دنیا کا ننھا سائنس دان‘‘ کا ایوارڈ دیا جا چکا ہے۔ اردن حکومت کی طرف سے’’شاہ حسین ایوارڈ‘‘ اور ’’عرب یوتھ ڈویلپمنٹ کونسل‘‘ کی جانب سے بھی ادیب کو خصوصی ایوارڈ دیے جا چکے ہیں۔
ننھے اماراتی سائنسدان کی ایجادات
اس کی پہلی قابل ذکر ایجاد اپنے معذور والد کے لیے مصنوعی واٹر پروف ٹانگوں کی تیاری تھی۔ ادیب کے والد اپنی دونوں ٹانگوں کو مصنوعی ٹانگوںکے اندر فِٹ کرکے نہ صرف بیساکھیوں سے زیادہ بہتر طریقے سے چل پھر سکتے ہیں بلکہ وہ ان مصنوعی ٹانگوں کے ساتھ غوطہ خوری بھی کرسکتے ہیں۔ ننھے ذہن کی مہارت دیکھیے کہ ٹانگوں کو قدرتی انداز میں کنٹرول کرنے کے لیے انہیں برقی تاروں سے جوڑنے کے بعد ان تاروں کو ایک چھوٹے آلہ سماعت کے ساتھ کان سے مربوط کیا گیا۔ یہ آلہ سماعت برقی تاروں کے ذریعے مصنوعی پاؤں تک دماغ کا پیغام پہنچاتا ہے جس کے ذریعے انہیں تحریک دی جاتی ہے۔
کم سن اماراتی سائنس دان کی دوسری اہم ایجاد’’ویکیوم کلینر روبوٹ‘‘ کی تیاری ہے۔ یہ ایک نہایت چھوٹا روبوٹ ہے جو عام طور پر گھروں میں کام کاج بالخصوص صفائی کے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ روبوٹ گھر کے ان مقامات تک بھی باآسانی پہنچ جاتا ہے جہاں انسان کا پہنچنا یا صفائی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ادیب کی تیسری ایجاد جدید کیمروں سے لیس ہیلمٹ ہے۔ یہ ہیلمٹ ہنگامی امدادی اداروں کے رضاکاروں کے زیر استعمال ہوتا ہے۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس ہیلمٹ کو سر پررکھنے کے بعد آس پاس گرمی، سردی اور پانی کا احساس نہیں ہوپاتا۔ بالخصوص فائر بریگیڈ کے امدادی کارکنوں کے لیے یہ بہت کام کی شے ہے۔ اس پرلگے کیمرے براہ راست تصاویر اور ویڈیو آپریشن کنٹرول روم کو ارسال کرتے ہیں جن کی مدد سے آگ پرقابو پانے کے آپریشن کو مزید بہتر انداز میں آگے بڑھا یا جاسکتا ہے۔ نیز یہ ہیلمٹ دھوئیں، تاریکی اور رات کے اندھیرے میں روشنی بھی مہیا کرتا ہے۔
ادیب سلیمان کے والد سلیمان محمد اسماعیل نے اپنے بیٹے سے ایک دفعہ پوچھا کہ اگرکوئی شخص کار ڈرائیونگ کے دوران حادثے سے دوچار ہوجائے تو کیا تمہارے پاس اس حادثے کی فوری اطلاع دینے کے لیے کوئی آئیڈیا ہے، تو اس نے برجستہ جواب دیا ۔ہاں! بالکل ہے۔ وہ یہ کہ کار کی سیٹ بیلٹ کے ساتھ ایک چھوٹا ساآلہ لگے گا جو وائرلیس کے ذریعے متاثرہ شخص کے بارے میں فوری اطلاع اس کے اہلخانہ اور ایمرجنسی پولیس کو پہنچا سکے گا۔ بعد میںاس نے وہ آلہ بھی تیار کیا۔
حا ل ہی میں ادیب سلیمان نے دبئی میں اپنی ایجادات کے حوالے سے ایک پریزنٹیشن دی۔ سائنسی تحقیقات اور ایجادات کے بارے میں اس نے کہا کہ ’’میں ابھی بہت چھوٹا تھا جب میرے سامنے کوئی کھلونا آتاتو میں اسے تجسس کی نگاہ سے دیکھتا۔ جب تھوڑا بڑا ہوا تو میں کھلونوں سے کھیلنے کے بجائے انہیں کھول کردیکھتا کہ ان کے اندر کیا ہے اور یہ کیسے بنائے جاتے ہیں؟۔
میں اپنے گردو پیش کے ماحول کو دیکھتا اور ہرچیز کے بارے میں میرے ذہن میں سوالات اٹھتے، آسمان کو دیکھتا تو سوچتا رہ جاتا کہ اس کا رنگ نیلا کیوں ہے؟ نیچے گھاس پرنظر پڑتی تو فور ا خیال آتا کہ گھاس سبز کیوں ہوتا ہے؟۔پھر اپنی ذات کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے لیکن مجھے ہرسوال کا جواب حاصل کرنے کی فرصت نہیں ملی کیونکہ میں بعض سوالوں کے عملی جوابات کے حصول میں منہمک ہو گیا تھا۔ ادیب سلیمان کی ایجادات میں سے ایک ایجاد معذور بچوں کے لیے ریموٹ کنٹرو ل کی مدد سے چلنے والی ’’وہیل چیئر‘‘ بھی ہے۔ اس مخصوص وہیل چیئر کی تیاری کے بعد کئی بین الاقوامی فرموں نے اسے بھاری معاوضے کے بدلے اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی۔
عالمی سائنسی ٹور
متحدہ عرب امارات کے ننھے ادیب کو پچھلے چار برسوں کے دوران کئی بار بیرون ملک دوروں کی دعوت مل چکی ہے۔ عرب ممالک، فرانس اور جرمنی میں مختلف سائنسی تحقیقاتی کانفرنسوں میں شرکت کرچکا ہے لیکن حال ہی میںاماراتی ولی عہد شہزادہ حمدان بن محمد بن راشد آل مکتوم کی جانب سے ادیب سلیمان بلوشی اور اس کے اہل خانہ کو سات ممالک کے سائنسی ’’ٹور‘‘ پر بھیجا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں ’’امارات انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ ادیب کے بین الاقوامی سائنسی مطالعاتی دورے کی نگرانی کر رہی ہے۔
ادیب نے اپنے غیرملکی دورے کا آغاز بیلجیم سے کیا ہے۔ اگلے مراحل میں وہ امریکا، فرانس، آئرلینڈ،اٹلی ، جرمنی اور برطانیہ میں مختلف کانفرنسوں میں شرکت کرے گا۔بیلجیم میں ’’گرین کاربن کانفرنس‘‘ کی طرف سے ادیب کو پہلے ہی دعوت مل چکی تھی۔ اپنے اس دورے میں وہ اس کانفرنس میں بھی شرکت کرے گا۔وہاں سے وہ فرانسیسی شہر ’’لافال‘‘ جائے گا جہاں وہ ایک بین الاقوامی کانفرنس ’’روبوٹ مشین برائے انسان‘‘ میں شرکت کرے گا۔ فرانس کے بعد وہ جرمنی کے شہر میونخ پہنچے گا ، وہاں سے امریکا کے شہر نیویارک میں دو الگ الگ کانفرنسوں میں شرکت کے بعد ریاست کیلیفورنیا میں امریکی خلائی تحقیقاتی ایجنسی’’ناسا‘‘ کے ہیڈ کواٹر کا دورہ کرے گا۔ وہاں سے برطانیہ اور آخر میں آئرلینڈسے ہوتے ہوئے یہ ننھا سائنسدان ایک ماہ بعد وطن واپس لوٹے گا۔
ادیب کے والد الشیخ سلیمان محمد اسماعیل البلوشی کا کہنا ہے کہ ادیب نے کم عمری ہی میں کھیل کود کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ اسے گھرمیں کوئی کھلونا دیا جاتا تو وہ اسے کھول کرجوڑنے کی مشق کیا کرتا، سب اس کی اس حرکت پر حیران ہوتے اور برا کہتے لیکن آج ہمیں اس کی حقیقت سمجھ آئی ہے۔ سلیمان محمد اسماعیل البلوشی کا کہنا تھا کہ میں اپنے بیٹے ادیب سے اس کی چھ سال کی عمرکو سامنے رکھتے ہوئے بات کرتا تو وہ مجھے میری پینتالیس سال کی عمر کے مطابق جواب دیتا۔ انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا آج جس مقام پر کھڑا ہے وہ دبئی حکومت اور ولی عہد الشیخ حمدان بن راشد آل مکتوم کی توجہ اور تعاون کا نتیجہ ہے۔
لنک